بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا
انسان کی اصلیت اور اس کا کردار تشریح : ان چار آیات میں رب رحمن و رحیم نے انسان کی حیثیت کردار مقصد ذمہ داریاں پیدائش عمل مرتبہ پھر انجام اور نتیجہ سب کچھ بیان کردیا ہے۔ یہی تو قرآن کی معقولیت جامعیت نفاست اور بےمثل ہونے کی دلیلیں ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے اور سائنسدانوں کی تحقیقات اور قرآن کا بیان یہی ثابت کر رہا ہے کہ پہلے کائنات بنائی گئیـ اور پھر انسان کا ظہور ہوا۔ جو کہ واضح الفاظ میں بیان کیا جاچکا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا گیا پھر حوا کو اور پھر دونوں کو جنت میں جگہ ملی۔ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی شیطان نے بھی اپنی گدی سنبھال لی کہ قیامت تک انسان کو گمراہ کرے گا۔ لہٰذا اس نے اپنا کام سیدناآدم (علیہ السلام) سے شروع کردیا۔ ان کو گمراہ کیا۔ وہ اس کی باتوں میں آگئے اللہ کا حکم بھول گئے اپنے ضمیر سے مار کھاگئے نفس امارہ۔ (شیطان) کے حکم پر چل پڑے۔ تو اس غلطی سے اپنا اتنا بڑا نقصان کرلیا کہ جنت سے نکال کر زمین میں آباد ہونے کا حکم صادر ہوگیا۔ اور یوں زمینی زندگی کے چکر میں جت گئے۔ اللہ کیونکہ رحمن و رحیم ہے اس لیے اس نے اس خطا کار کو معافی مانگنے اور اپنے منصب کو بحال رکھنے کے طریقے سکھا دئیے۔ اللہ نے کیونکہ انسان کو اشرف المخلوقات اور نائب اللہ بنایا ہے اس لیے اس کو بصارت اور سماعت کی طاقت عطا کردی۔ یوں تو جانور بھی سنتے اور دیکھتے ہیں مگر ان کو اس ادراک یعنی عقل سمجھ اور ارادے کی طاقت نہیں دی گئی جو انسان کو دی گئی ہے اور یہ اس لیے دی گئی ہے تاکہ وہ کائنات کی ہر چیز کو غور و فکر سے دیکھے اور پھر اس کے بنانے والے کو پہچانے یہ انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے جس طرح قدرت کی ہر چیز میں ایک تعمیل کا مادہ رکھ دیا گیا ہے یعنی سورج، چاند، ستارے، پرند، چرند، زمین، آسمان غرض ہر چیز حکم الٰہی کی پابند ہے۔ اپنی مرضی اور ارادہ استعمال کرنے کی نہ تو اسے اجازت ہے اور نہ ہی گـنجائش ہے۔ مگر انسان کو علم ارادہ، سماعت اور بصارت دے کر تین طاقتیں یعنی نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ دے کر تمام راستے ان پر چلنے کی ہدایات پیغمبروں کے ذریعے ان کے سامنے رکھ دیں۔ ایک تقدیر کے پرچہ کو سامنے رکھ کر امتحان دینا شروع کر دو ۔ امیر ہونا، غریب ہونا، بیمار یا صحت مند ہونا یہ لکھ دیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ امیر ہو کر کہاں تک حقوق اللہ حقوق العباد کا خیال رکھتے ہو۔ کس حد تک اللہ کی شکر گزاری کرتے ہو بس یہی اعمال کا پرچہ تیار ہوگا اسی طرح غریب ہو تو غربت میں کس حد تک شکر گزاری کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرتے ہو۔ اسی طرح صحت مندی اور بیماری میں اپنا رویہ حدود اللہ میں رہ کر کہاں تک رضاء الٰہی کے مطابق ٹھیک رکھتے ہو۔ اور یہی ہے انسان کی تخلیق کا مقصد اور پھر مزید یہ کہ آخرت میں اس حل شدہ پرچے کا رزلٹ مل جائے گا۔ جب ہم اپنی پیدائش کے پورے منصوبے پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے ہم اللہ کے اختیار میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہی ہمارا خالق ہے مالک ہے اور اسی کی طرف واپس چلے جائیں گے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ اللہ نے بار بارکہہ دیا ہے کہ جیسے پہلے تم کچھ بھی نہ تھے سو ایک بوند پانی سے تمہاری تخلیق ہوگئی یہ تو تمہیں اب معلوم ہوا کہ مرد عورت کے ملنے سے یہ انتہائی باریک ترین جر سومہ ماں کے رحم میں پرورش پا کر انسان کی صورت میں دنیا میں آجاتا ہے۔ یہ غیب کی خبر کہ تم دوبارہ زندہ کر کے اللہ کے حضور حاضر کئے جاؤ گے بالکل سچ ہے۔ اگر ہم اس کو سچ نہ سمجھیں تو ہمارا ایمان ناقص ہے اور ہماری زندگی حیوانات سے کم نہ ہوگی۔ جیسا کہ غیر مسلم قوموں میں کئی حیوانی عادات پائی جاتی ہیں۔ ان میں شرم و حیا اور انسانیت کا تقدس نام کو بھی نہیں ملتا۔ اسی طرح ان کا تمدن، معاشرت، معیشت اور عام کردار بیشمار خرابیوں کا حامل ہے۔ جب کہ مسلمان کو رب تعالیٰ نے پیدا ہونے زندگی گزارنے اور پھر مر کر انعام پانے کے تمام طریقے اصول اور ایک مکمل ضابطہ عطا کردیا ہے۔ اسی لیے وہ جانتا ہے بھلائی کیا ہے ضمیر یعنی نفس لوامہ اور مطمنئہ کی حفاظت کیسے کرنی ہے وہ خدائے واحد کو مانتا ہے۔ کسی اور کو نہیں مانتا۔ مسلم کی یہ خاصیت ہے کہ وہ تاریخ سے پورا سبق حاصل کرتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اللہ کیوں اور کیسے ناراض ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جرم کی سزا یہاں دنیا میں بھی مل جاتی ہے جو بڑی معمولی ہوتی ہے مگر اصل سزا تو حشر میں ملے گی جو بڑی سخت سزا ہوگی۔ ہر دور میں پیغمبر اور رسول آتے رہے اور ان سب نے یہی تعلیمات دیں جن لوگوں نے ان کی تعلیمات کو مان لیا وہ صالحین میں شامل ہوگئے جنہوں نے نافرمانی کی وہ پوری طرح ناکام ہوئے اور ذلیل و خوار ہوئے۔ قرآن پاک کی پہلی سورت بتا دیتی ہے کہ اللہ ہی رب العلمین ہے رحمن ہے رحیم ہے اور پھر مالک یوم الدین ہے۔ اس میں کائنات اور انسان کے تین مرحلے بیان کر دئیے گئے ہیں۔ یعنی وجود سے پہلے موجودہ دور اور پھر دوبارہ زندہ کئے جانے کا دور۔ مسلمان یہ تمام ادوار بڑی سنجیدگی اور متانت سے گزارتا ہے۔ سیدناابو بکر صدیق کا قول ہے : کم کھانا صحت، کم بولنا حکمت اور کم سونا عبادت میں داخل ہے۔ بیشک زندگی کے ساتھ سمجھوتہ ضروری ہے ورنہ انسان ٹوٹ جاتا ہے۔ اسلام کبھی بھی سختی، جبر، خلاف فطرتِ انسانی کا حکم نہیں دیتا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ﷺ نے جب یہودی و عیسائی حکمرانوں کو خطوط بھیجے تو آغاز میں یہ آیت لکھی۔ اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان متفق ہے۔ یعنی تم بھی اہل کتاب ہو اور ہم بھی اہل کتاب ہیں۔ اس لیے ہمیں آپس میں تعاون کرنا چاہیے۔ اور یہ مفتوحہ اقوام کو مذہبی آزادی کی دعوت دی گـئی تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ رواداری اور نرمی کا طریقہ اختیار کیا۔ القرآن۔ اللہ ہمارا بھی مالک ہے اور تمہارا بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہماری کچھ بحث نہیں اللہ ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کے پاس جانا ہے۔ یہی تو وہ آزادی ہے جو اس دنیا کے ہر انسان کو دی گئی ہے۔ پھر فرمایا اور اسے راہ بھی دکھا دی اب وہ چاہے شکر گزار ہو چاہے ناشکرا۔ ہم نے کفار کے لیے زنجیریں طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (سورۃ الدھر آیات 4-3)
Top