بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں
بہت بڑی خبر (قیامت) تشریح : جب رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی وحدانیت کا تصور لوگوں کو دیا اور ساتھ ہی قیامت کا ذکر کیا اور دوبارہ زندہ کرکے حساب لینے کا ذکر کیا تو لوگ حیران و پریشان ہوگئے اور بہت سے لوگ آپ کی ان باتوں کا مذاق اڑانے لگے اور دونوں باتوں کو ہنسی مذاق کا ذریعہ بنا لیا۔ کچھ نے تو جان بوجھ کر اور کچھ نے کم علمی کیوجہ سے۔ دونوں ہی باتیں ان کے لیے سوائے خیالی باتوں کے اور کچھ نہ تھا۔ تو وہ لوگ اٹھتے بیٹھتے طرح طرح سے مذاق اڑاتے کہ دیکھو محمد ﷺ (نعوذ باللہ) دیوانہ ہوگیا ہے کیسی انہونی باتیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہی دیوانے لوگوں کو خبر دے رہے ہیں کہ اگرچہ تم یقین نہیں کرتے مگر قیامت کا آنا ضروری ہے آکر رہے گی اور تم دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے پھر اپنی آنکھوں سے یہ سارا معاملہ دیکھ لوگے ابھی نہیں مانتے تو نہ مانو، آج کا سائنس دان ہزاروں تجربات کرنے کے بعد اب قرآن پاک کی بتائی گئی اس حقیقت تک پہنچا ہے کہ ' یہ کائنات ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتی نہ یہ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ بلکہ اس کی عمر پندرہ بیس ارب سال ہے اور کسی دن یہ سب ختم ہوجائے گا۔ لیکن وہ کب ہوگا ؟ اس کا حساب لگانا مشکل ہے۔ اس کے بعد اسی ملبہ سے نئی تخلیق کی بنیاد پڑے گی۔ (از قیامت اور حیات بعد الموت مصنف سلطان بشیر محمود) مزید لکھتے ہیں : سائنس دان اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ زمین آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے اور پھر ایک مقررہ پھیلاؤ کے بعد سکڑنا شروع ہوجائے گی اور اندر کی طرف کھچاؤ کی طاقت بڑھتی چلی جائے گی اور یوں اجرام سماوی تیزی سے اندر کی طرف رش کریں گے اور پھر آپس میں ٹکراؤ کا سلسلہ تیز ہونے لگے گا اور پھر ایک وقت آئے گا کہ کائنات میں مزید بھنچ جانے کی گنجائش نہ رہے گی اور تب ایک انتہائی زبردست دھماکے کے ساتھ دوبارہ اچھلے گی اور یوں کائنات اپنی قیامت سے دوچارہوجائے گی۔ “ اس تحریر سے اور قرآن کی خبر سے ایک ہی پیغام ملتا ہے کہ قیامت کے نزدیک قدرتی آفات زیادہ ہونے لگیں گی۔ قیامت کے وقت صور پھونکا جائے گا یعنی زبر دست دھماکہ ہوگا۔ یہ سب اچانک ہوگا اور پھر ایک نئی کائنات کا آغاز ہوگا۔ یہ سب سائنس اب بتا رہی ہے جو قرآن پاک نے طویل عرصہ پہلے لوگوں کو بتا دیا تھا۔ اس وقت تو لوگ کفر و شرک میں ڈوبے ہوئے تھے اپنے آباؤ اجداد سے یہی کچھ سنتے آرہے تھے اور پھر بےعلم بھی تھے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے اس خبر پر غوروفکر کیا اور ایمان لے آئے اور کچھ بد نصیب اس خبر سے انکار ہی کرتے رہے۔ مگر فی زمانہ اس خبر سے انکار کرنا سوائے ہٹ دھرمی کے اور کچھ نہیں۔ بہر حال لوگ انکار کریں یا اقرار کریں اللہ کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس کے مقرر کئے گئے وقت پر قیامت ضرور آئے گی اور حساب کتاب ضرور ہوگا۔ جس طرح یہ کائنات حقیقت ہے اسی طرح دوبارہ زندہ ہونا بھی حقیقت ہے۔ اللہ کی نعمتیں بیشمار ہیں۔
Top