Mafhoom-ul-Quran - An-Naba : 37
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًاۚ
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ : جو رب ہے آسمانوں کا وَالْاَرْضِ : اور زمین کا وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ : اور جو ان دونوں کے درمیان ہے رحمن لَا يَمْلِكُوْنَ : نہ مالک ہوں گے مِنْهُ خِطَابًا : اس سے بات کرنے کے
وہ جو آسمانوں اور زمین اور جو ان دونوں میں ہے سب کا مالک ہے۔ بڑا مہربان کسی کو اس سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوگی
قیامت کا منظر تشریح : یہاں ایک اور فضائی راز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کو سائنس دان اچھی طرح واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ '' آسمانوں اور زمین اور جو ان دونوں میں ہے ''۔ (آیات 27) جناب سلطان بشیر محمود صاحب اس کی وضاحت سائنسی نقطہ نگاہ سے کچھ یوں کرتے ہیں۔ '' ابھی تک اس طرف جو پیش رفت ہوئی ہے ان میں تازہ ترین سائنسی انکشافات یہ ہیں کہ فضابہت چھوٹے چھوٹے تخموں سے اس طرح بھری پڑی ہے جیسے زمین پر کسی بیج کا چھینٹا دیا جاتا ہے۔ یہ فضائی جراثیم فضا میں ایک مقام سے دوسرے تک تابکاری کے دباؤ سے حرکت کرتے رہتے ہیں۔ وہ اتنے سخت جان ہیں کہ فضا کی سردی اور دباؤ کو برداشت کرسکتے ہیں۔ ان کی اس سخت کو شی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ زمین پر آجائیں تو ان کو تباہ کرنا آسان نہیں ہوگا ''۔ (از قیامت حیات بعدا لموت) یہ راز مادہ غیب کے بارے میں تاحال متنازع معاملہ ہے واللہ اعلم۔ آیات 38 تا 40 تک پھر حساب کے دن کا اعلان واضح الفاظ میں کیا گیا ہے۔ جس کی مرضی ہے کہ اس کو مانے اور جس کی مرضی ہے نہ مانے بہرحال اس کی سختی کا اظہار یوں کیا گیا ہے کہ '' کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہوتا ''۔ (آیت 40) حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور امتحان کا خوف اس قدر زیادہ ہوگا کہ کوئی شخص بول نہ سکے گا دنیا کی طرح کسی قسم کی سفارش رشوت یا طرف داری کی ہمت کسی کو نہ ہوگی ہاں البتہ صرف ان قابل قدر ہستیوں کو بولنے کی اجازت ہوگی جن کو بولنے کی اللہ کی طرف سے اجازت ہوگی۔ اس بات کو ہم احادیث کی مدد سے واضح کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ '' ہر نبی کی ایک دعا خصوصی طور پر قبول ہوتی ہے۔ چناچہ ہر پیغمبر نے اس دعا میں جلدی کرلی ہے۔ مگر میں نے قیامت کے روز اپنی امت کی شفاعت کے لیے اس دعا کو بچا رکھا ہے۔ میری امت میں سے جو شخص غیر مشرک مرے گا ' اللہ نے چاہا تو اس دعا کا فائدہ اسے پہنچے گا ''۔ (اللولووالمرجان) پھر انبیاء، علماء اور شہداء کی سفارش کا ذکر حدیث میں اس طرح کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء ' علماء اور شہداء (اللہ کے حکم سے) سفارش کریں گے ''۔ (ابن ماجہ) حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا '' قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہو ' اس لیے کہ قیامت کے روز یہ بھی ان کی سفارش کرے گا جو اس کی تلاوت کرتے تھے ''۔ (مسلم) پھر یہ بھی شرط ہے کہ صرف ان لوگوں کے لیے سفارش کی اجازت ہوگی یا سفارش قبول کی جائے گی جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرسکیں گے مگر ہاں اس شخص کی جس سے اللہ راضی ہو۔ (سورۃ النجم) پھر فرمایا : سفارش تو تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے کہہ دو ''۔ (زمر : 44) '' شفاعت کا حق حاصل کرنے والوں کو تین اعمال پر پابندی کرنی چاہیے۔ 1 توحید کا اقرار شرک کا انکار 2 نمازوں کا پابند ہونا 3 درود شریف کی کثرت یعنی اکثر پڑھتے رہنا '' (از مومن کے عقائد) اُمید ہے کہ ان لوگوں کو سمجھ آگئی ہوگی جو یہ کہتے ہیں کہ '' دیکھا جائے گا ''۔ اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ '' ہم تو رسول پاک ﷺ کے امتی ہیں۔ ہمیں اعمال کی کیا ضرورت ہے ''۔ اللہ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اے اللہ ! اپنے پیغمبر کی شفاعت کی سعادت مجھے نصیب فرما آمین۔ آخر میں بڑی وضاحت سے اعلان کردیا گیا ہے کہ حساب کا دن ضرور آئے گا بدلہ ضرورملے گا اور حساب کا دن اس قدر تکلیف دہ ہوگا کہ کافر کہے گا اے کاش میں مٹی ہوتا۔ (آیت 40) اللہ جل جلالہ اس دن کی سختی اور مصیبت سے اپنی امان میں رکھے اور پیغمبر ﷺ کی شفاعت عنایت کرے۔ آمین خلاصہ سورة النبا جیسا کہ اس سورة مبارکہ کے نام سے ہی ظاہر ہو رہا ہے '' خبر ''۔ کس چیز کی خبر ! ایک ایسی بات کی '' خبر '' جو ہمارے مشاہدے اور تجربے سے باہر ہے۔ جس کو ہم نبی ﷺ کے ذریعے سنتے قرآن میں پڑھتے ہیں۔ اور یہ دونوں ذریعے قابل اعتماد ہیں۔ کیونکہ اللہ نے ہمیں پیدا کیا کا ئنات بنائی وہ ہمیں بتا رہا ہے کہ یہ کائنات ایک دن ضرور ختم کردی جائے گی اور تمہیں بھی ختم کردیا جائے گا مگر دونوں کا ختم ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارا یہاں آنا اس دنیا کی زندگی کی شروعات ہیں اور مرجانا دوسری دنیا میں نئی زندگی حاصل کرنے کی شروعات ہوں گی۔ اسی طرح کائنات کا وجود میں آنا اور پھر ختم ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا اختتام دوسری کائنات کا وجود ہوگا۔ جس طرح تم کچھ نہ تھے انتہائی حقیر ترین نطفہ سے انسان بنادئیے گئے اسی طرح حساب کے دن تم لوگ دوبارہ ضرور زندہ کھڑے کر دئیے جاؤ گے اور اس زندگی کے اعمال نامے کے ساتھ تاکہ تمہیں آخرت کی ابدی زندگی میں انعام یا سزا دی جائے۔ دوسرا ذریعہ ہے پیغمبر آخر الزماں محمد ﷺ وہ اللہ کے انتہائی برگزیدہ نبی ہیں۔ اور ان کو رب تعالیٰ نے جنت و دوزخ کا مشاہدہ اس زندگی میں کروا دیا تھا۔ ان کا تو صرف کہہ دینا ہی مسلمان کے لیے قابل اعتبار ہے جب کہ انہوں نے آخرت کے یقین کرنے کے لیے قرآنی آیات بار بار کثرت سے لوگوں کو بتا دی ہیں تو اب شک و شبہ کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یقین کرنے والے متقین کے بارے میں اللہ فرماتا ہے۔ '' اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ''۔ (البقرہ : 4) پھر فرمایا۔ '' اور ان میں سے کوئی کہتا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی۔ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا ''۔ (البقرۃ 201) دیکھا جائے تو ہر بندے کی زندگی کا مقصد متعین کردیا گیا ہے۔ یعنی '' امتحان ''۔ اس پوری زندگی کا امتحان۔ یہی تو مقصد ہے انسان اور کائنات کی پیدائش کا۔ بھلا یہ سب کچھ یونہی بےمقصد کھیل تماشہ تو نہیں ہوسکتا۔ یہ سب کچھ بامقصد ہے۔ تو ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ زندگی میں کسی بھی ذمہ داری کے حامل ہوں پورے خلوص نیک نیتی اور اللہ و رسول ﷺ کی حدود میں رہ کر اپنے فرائض ادا کریں۔ چاہے آپ ماں ہیں۔ باپ افسر ' ٹیچر ' لیڈر ' طالبعلم ' ڈاکٹر ' انجنئیر ' سائنسدان ہیں۔ غرض کچھ بھی ہیں اپنے فرائض پوری ایمانداری محنت اور خوف خدا دل میں رکھ کر کریں۔ تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ ' آپ کا متعلقہ شعبہ ' قوم اور آپ کا ملک کیسے ترقی کرنے لگے گا۔ یہ انعام تو ہوگا اس دنیا میں۔ اور بڑا انعام جس کا تصور ہی بےچین کردیتا ہے۔ اور جو رب اعلیٰ ' مالک الملک ' غفور رّحیم اور قادر مطلق کی طرف سے دوبارہ زندہ ہونے پر بہترین اعمال کے صلہ میں دیا جائے گا۔ وہ ہے '' جنت ''۔ جس کی تعریف قرآن میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔ القرآن۔ '' اور جیسی چیز کو تمہارا جی چاہے ' جنت میں تمہارے لیے موجود ہے۔ اور جو مانگو وہاں موجود ہوگا ''۔ (فصلت : 31) حدیث میں یوں آیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ '' اور لمبے لمبے سائے اور بہتے ہوئے پانی ' بہت سے میوے ہوں گے جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ کوئی ان سے روکے گا اور اونچے فرش ہوں گے ''۔ (بخاری ' مسلم ' ترمذی) یہ تو کچھ بھی نہیں قرآن پڑھو تو دیکھو جنت کیسی شاندار چیز اللہ نے بنائی ہے۔ شرط یہ ہے۔ '' کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے اور تمہارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی (النساء : 77) (الحمد للہ سورة النبا مکمل ہوگئی)
Top