Mafhoom-ul-Quran - Al-Anfaal : 50
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا١ۙ الْمَلٰٓئِكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ١ۚ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذْ : جب يَتَوَفَّى : جان نکالتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يَضْرِبُوْنَ : مارتے ہیں وُجُوْهَهُمْ : ان کے چہرے وَاَدْبَارَهُمْ : اور ان کی پیٹھ (جمع) وَذُوْقُوْا : اور چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : بھڑکتا ہوا (دوزخ)
اور کاش آپ اس حالت کو دیکھ سکتے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے، ان کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگاتے تھے اور کہتے تھے اب آگ کے عذاب کا مزہ چکھو۔
موت کے وقت کفار کی حالت تشریح : یہاں کفار کے اعمال باطل کے وجہ سے ان کے انجام کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ میدان جنگ، یعنی غزوہ بدر میں کفار کی تکلیف دہ موت کا ذکر اللہ رب العزت نے واضح الفاظ میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ فرشتے کس قدر تکلیف کے ساتھ کفار کی جان نکال رہے تھے اور ساتھ ہی ان کو یہ بھی بتا رہے تھے کہ یہ تو صرف دنیا کی ذلت و خواری اور ہلاکت تم دیکھ رہے ہو۔ اس عذاب کا تمہیں علم ہی نہیں جو موت کے بعد شدید آگ کا عذاب تمہیں دیا جائے گا اور یہ سب کچھ تمہیں اپنے ہی کیے ہوئے کاموں کے بدلہ میں ملے گا۔ ویسے اس کا حکم عام بھی ہے کہ کفار کی موت کیسے واقع ہوتی ہے کیونکہ اللہ ارحم الراحمین ہے وہ کبھی بھی کسی کو بغیر وجہ عذاب نہیں دیتا۔ وہ تو ہر بندے پر رحمتیں نازل کرتا ہے چاہے وہ کافر، مشرک ہو یا مومن ہو۔ اسی لیے تو ہر زمانہ میں آسمانی کتابوں، رسولوں اور انبیاء کے ذریعہ انسانوں کی ہدایت کا بندوبست کیا گیا ہے۔ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں سیدھی، صاف اور ایمان کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں فلاح پاتے ہیں مگر جو ضد، کفر اور نافرمانی کو ہی اختیار کیے رہتے ہیں تو وہ پھر عذاب اور سزا ضرور پاتے ہیں دنیا میں بھی آخرت میں بھی جیسا کہ ان کفار مکہ کا حال ہوا۔ ان کا حال بھی ایسا ہی ہوا جیسا کہ فرعون اور ان سے پہلی قوموں کا ہوچکا ہے۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم پر پانی کا عذاب، عاد پر آندھی کا عذاب، ثمود کو زلزلہ کا عذاب اور فرعونیوں کو سمندر میں غرق کردیا گیا۔ یہ سب کچھ ان قوموں کی سرکشی، غرور، کفر، شرک اور نافرمانی کی وجہ سے ان پر مسلط کیا گیا اسی طرح مکہ کے کفار کو شکست کی ذلت اور ہلاکت کا منہ دیکھنا پڑا۔ ثابت ہوگیا کہ اللہ رحیم ہے کریم ہے اور سب کچھ دیکھنے اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ وہ ہر اس قوم کو موقع دیتا ہے جو اس دنیا میں وجود پاتی ہے کہ وہ نعمتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی کرے مگر جن کی نیتیں خراب اور اعمال خراب ہوجاتے ہیں تو پھر انکو اس خباثت کا عذاب ضرور بھگتنا پڑتا ہے۔ شکرگزاری، نیک نیتی اور اعتقاد علی اللہ ہی قوموں کی ترقی، سرفرازی اور کامیابی کا ذریعہ ہیں اور بدترین قومیں وہ ہیں جو ان تمام صفات سے دور ہوں۔ ایسے لوگ اتنے زیادہ بھٹک جاتے ہیں کہ پھر ایمان کی روشنی کبھی بھی ان کو نہیں ملتی۔ ایمان کی سلامتی اور اللہ کے فضل و کرم کی دعا ہر وقت کرتے رہنا اور اس راستے میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔
Top