Mafhoom-ul-Quran - Al-Anfaal : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں وہ اپنی چالوں سے (ہم کو ہرگز) عاجز نہیں کرسکتے۔
جہاد کی تیاری کا حکم اور اللہ کی قدرت کا کرشمہ تشریح : پہلی آیت میں تو کفار کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی مصیبت اور پریشانی سے نجات پا جائے اور اپنے گناہ سے بجائے توبہ کرنے کے اس پر اور بھی ڈٹا رہے تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تو صرف اس کو ڈھیل دی گئی ہے یہ اس کی کامیابی نہیں کیونکہ جب اللہ چاہے اس کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ اس کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف کوئی چال چلنا ہرگز ممکن نہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی جنگ کے کچھ اصول مسلمانوں کو بتائے گئے ہیں اسی طرح امن کے زمانے میں بھی دشمنوں سے غافل ہونے سے منع کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ امن کے زمانے میں ملک کی سرحدوں اور دشمن کی چالوں سے ہر وقت ہوشیار رہنا چاہیے۔ مذہب اسلام دنیا میں امن و سکون اور انسان کی آزادی کے لیے آیا ہے۔ جنگ و جدل اور قتل و غارت گری مسلمان کا نہ شیوہ ہے نہ مقصد۔ لڑائی کی اجازت صرف اس وقت دی گئی ہے جب انسان انسان پر ظلم کرے۔ بےحیائی، کفر اور شرک، اخلاقی برائیاں اور کردار کی گراوٹ پیدا ہوجائے تو اس کے خلاف مسلمانوں کو ہر وقت زمانہ کے مطابق اپنی طاقت، اسلحہ اور اتحاد و اتفاق کو بالکل معیار کے مطابق رکھنا چاہیے، یعنی علوم و فنون میں کسی طرح بھی کسی سے پیچھے نہ رہنا چاہیے یہ اس لیے کہ اپنے دشمن، اللہ کے دشمن اور پوشیدہ دشمن سب پر تمہارا رعب داب ہو تمہاری طرف بڑھنے سے پہلے سوچ لے کہ تم نہ تو اس سے کم تر ہو اور نہ ہی کمزور اور پھر یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اتنی تیاری کرو جتنی تم کرسکو۔ مطلب یہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر صرف سامان حرب پر ہی خرچ نہ کرنے لگو۔ دوسرا اگر کوئی صلح کی طرف راغب ہو تو تم بھی صلح کی طرف ضرور قدم بڑھائو۔ ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھو کہ تم جو بھی کر رہے ہو صرف اللہ کے لیے کر رہے ہو۔ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو۔ اگر وہ دھوکہ دہی کے لیے صلح کر رہے ہیں تو پھر بھی تم بالکل پریشان نہ ہو کیونکہ تم نے جس پر بھروسہ کر رکھا ہے وہ اللہ بزرگ و برتر سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ وہ تمہارے ان دشمنوں کو بھی جانتا ہے جو بظاہر تمہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اگر تمہارے دشمن تم سے دھوکہ کرنا چاہیں تو تم یاد رکھو تمہارا مددگار رب العالمین ہے۔ اس نے ہمیشہ تمہاری مدد کی ہے۔ مثال کے طور پر اہل مدینہ کا آپ کے ساتھ محبت کرنا اور پھر آپس میں مسلمانوں کا اتحاد یہ دونوں باتیں کسی بھی انسان کے اختیار میں نہ تھیں۔ چاہے اس کوشش میں آپ ﷺ دنیا کا تمام خزانہ خرچ کردیتے، یعنی اہل عرب جیسے اجڈ، بھٹکے ہوئے، ضدی، خون خوار اور مشرک بت پرست قوم کو یوں بدل کر بہترین قوم کی شکل میں ڈھال دینا یہ ہرگز ممکن نہ تھا یہ تو اللہ رب العزت کی خاص رحمت آپ ﷺ پر تھی کہ اس نے اس مشن میں آپ ﷺ کی بھرپور مدد کی۔ یہ صرف اس زبردست اور حکیم وخبیر اللہ واحد کا ہی کام ہے کہ اس نے یہ سب بہتریاں کردیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اے نبی ﷺ ! تم بےدھڑک ہو کر پورے توکل، نیک نیتی، محنت اور خلوص سے اپنے کام میں لگے رہو۔ بالکل سوچ و بچار میں نہ پڑو کیونکہ تمہارا مددگار ” اللہ “ ہے۔ جو سب سے بڑا، طاقتور اور بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
Top