Mafhoom-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے عجیب بنائے گئے ہیں
اللہ کی تخلیقات اللہ کی شہادت دیتی ہیں تشریح : اس جہان کی ہر چیز ہمارے سمیت اللہ کے بےمثل خالق ومالک ہونے کا پکا ثبوت ہے۔ یہاں تمام عالم حیوانات میں سے اونٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو حکمت سے خالی نہیں۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب کی کتاب سے حوالہ دیتی ہوں۔ لکھتے ہیں۔ '' اونٹ کو مصلحتاً موضوع بنایا گیا ہے۔ 1 ۔ اونٹ کے وجود میں ایسی خصوصیات ہیں جو کائنات میں نظریہ ارتقاء کو بےبنیاد ثابت کرتی ہیں۔ 2 ۔ اونٹ انتہائی دلچسپ حیاتیاتی خصوصیات رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ اپنے وٹامن خود پیدا کرتا ہے۔ اونٹ اپنی (Ionic) خصوصیت کی وجہ سے پانی کو پچاس دنوں تک اپنے اندر محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کو بہترین یادداشت عطا کی گئی ہے۔ یہ انسان کا بہترین خدمت گزار ہے کسی حد تک کینہ پرور جانور ہے۔ 3 ۔ صحرائی جانور ہونے کی وجہ سے یہ بڑا سخت جان ' حساس اور تابعدار جانور ہے۔ یہ ہضم کے نظام میں ایک خاصیت رکھتا ہے۔ صحرائی کانٹوں اور جھاڑیوں کو اس کا جسمانی نظام سیلولوز اور کاربوہائیڈریٹس میں تبدیل کرسکتا ہے۔ 4 ۔ صحرا کی لمبی مسافت اور مشکل حالات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ 5 ۔ یہ انتہائی صابر جانور ہے۔ انسانی آواز اور موسیقی کو پسند کرتا ہے۔ 6 ۔ اس کے جسم کی بناوٹ اس کے صحرائی جانور ہونے کے لیے انتہائی مناسب ہے۔ مثلاً لمبی گـردن کھانے کے لیے، کوہان پانی سٹور کرنے کے لیے، لمبی پلکیں صحرائی طوفان کا مقابلہ کرنے۔ لمبی ٹانگیں تیز رفتاری کے لیے اس کو صحرائی جہاز بھی اسی لیے کہا جاتا ہے۔ گدے دار موٹے پاؤں صحرائی ریت میں آسانی سے چلنے کیلئے۔ علی ھذا القیاس یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا ایک بہترین شاہکار ہے۔ جو مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز نہ تو مصلحت سے خالی ہے اور نہ ہی بےکار۔ آخر میں لکھتے ہیں '' کہ پھر تم انسان کیوں اللہ کی مرضی کے خلاف بغاوت اور خود سری کرتے ہو۔ جب کہ تم دیکھتے ہو کہ کس طرح ایک حیوان بھی صبر و شکر کا نمونہ ہے ''۔ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) اسی لحاظ سے آسمانوں ' زمین اور پہاڑوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر چیز اللہ کی تعریف کی دلیل۔ اور ان میں سے ہر چیز حکماء ' علماء اور تمام مادی علوم سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے بیشمار حکمتوں اور سائنسی حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اور ان کے بارے میں بڑی تفصیل سے گزشتہ مختلف سورتوں میں وضاحت کی جا چکی ہے۔ بہر حال یہ آیات اللہ کے اس بہترین نظام توازن کی طرف متوجہ کرتی ہیں جو اللہ میاں نے اپنی بےمثال قدرت سے پوری کائنات میں نافذ کر رکھا ہے۔ جس کو چلانا صرف اسی ذات باری تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو اس کا خالق واحد ہے۔ اتنا کچھ بار بار بتادینے کے بعد اگر انسان بدی اور نیکی میں فرق نہیں کرسکتا تو پھر فرمایا۔ '' بیشک ان کو لوٹ کر ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ اور پھر ہم ہی کو ان سے حساب لینا ہے ''۔ (آیات 26-25) خلاصہ سورة الغاشیہ خلاصہ یہی ہے کہ ابلاغ حق میں کوئی شخص ہرگز کسی صورت کوتاہی نہ کرے اور اس کے لیے خود کو مجسمہ حق بنانا ضروری ہے۔ سچ بنیاد ہے انسانیت کی معراج کی۔ جھوٹ سے نفرت اور سچ سے محبت اس حد تک کہ اس کے مخالفین بھی اس کے سچا ہونے کی گواہی دیں۔ جیسا کہ رسول پاک ﷺ کو کفار مکہ صادق و امین کہتے تھے۔ آپ ﷺ کی اور قرآن کی سچائی اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپ ایک یتیم اور بغیر کسی استاد کے ایک ایسی کتاب کے حامل اور دعویدار کہ جس میں دنیا جہاں کے علوم بیان کر دئیے گئے اور ماضی ' حال مستقبل کے ایسے ایسے حقائق بیان کر دئیے کہ جن پر دنیا کے بڑے بڑے ادباء، حکماء ' فلاسفر، شعراء اور علماء دن رات تحقیق میں مصروف ہیں اور بیشمار راز ہائے کائنات سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ نبی ﷺ و قرآن کی سچائی کے لیے کافی نہیں۔ جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا جو نکتہ وروں سے حل نہ ہوا وہ راز اس کملی والے نے بتلا دئیے چند اشاروں میں (مولانا الطاف حسین حالی ) حق کے سامنے کوئی چیز حقیقت نہیں رکھتی تو پھر کون سی مشکل ہے کہ حق کی راہ اختیار کر کے جنت نہ کمائی جائے اور دوزخ میں ٹھکانا بنا لیا جائے۔ ہمارے سامنے بیشمار حق پرستوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے زندگی کو حق پر قربان کردیا مثلاً سقراط کو دیکھیے جب اس نے اپنی قوم کی بت پرستی کی مخالفت کی تو ایتھنز کے بارہ منصفوں میں سے گیارہ نے ان کے قتل کا فیصلہ سنا دیا اور یوں سقراط نے حق پرستی پر جان قربان کردی۔ اگر ہر شخص اس سچائی کو دل سے مان لے کہ اس نے اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے تو پھر کوئی بھی جہنم کی راہ نہ پاسکے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ بفضل خدا سورة الغاشیہ ختم ہوگئی الحمد للہ۔
Top