Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
نبی اور مسلمانوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا مانگیں جبکہ ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔ بیشک ایسے لوگ ان کے قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں۔
مشرکوں کے لیے دعا کی ممانعت تشریح : جیسا کہ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا تھا اسی طرح یہاں مسلمانوں کو اور نبی اکرم ﷺ کو کفار و مشرکین اور منافقین کے لیے بخشش کی دعا کرنے سے منع کردیا گیا ہے اس آیت کا شان نزول صحیح بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ آپ ﷺ کے چچا ابوطالب آپ ﷺ کے مشفق، مہربان اور انتہائی عزیز چچا تھے مگر اسلام قبول نہ کیا جب وہ مرنے کے قریب ہوئے تو نبی اکرم ﷺ نے انکو کلمہ پڑھنے کے لیے بہت کہا تاکہ بخشش ہوجائے مگر ابوجہل وغیرہ نے بڑی مخالفت کی، لہٰذا وہ کلمہ پڑھے بغیر ہی فوت ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا بہت دکھ ہوا تو انہوں نے کہا کہ اچھا جب تک مجھے اللہ کا حکم نہ آگیا میں آپ (چچا) کے لیے مغفرت کی دعا ضرور کرتا رہوں گا۔ لیکن کیونکہ یہ اللہ کی مرضی کے خلاف تھا کہ مشرک کے لیے مغفرت کی دعا کی جائے، اس لیے اللہ رب العزت نے صاف صاف حکم نازل فرما دیا کہ جہنمی شخص کے لیے ہرگز کوئی بھی مغفرت کی دعا نہ کرے۔ اس کی زندگی میں اللہ سے دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ اس پر فضل کرے اور اس کے دل کو ایمان کی طرف پھیر دے لیکن جب وہ نہ مانے اور کفر و شرک کی غلاظت کے ساتھ ہی مرجائے تو پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہے جو کہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا جا چکا ہے اور اس سزا کے لیے کسی کی سفارش کام نہیں آسکتی لہٰذا اس کی مغفرت کی دعا سے نبی ﷺ اور مسلمان سب بری ہیں یعنی منع ہے کیونکہ یہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔ اس پر کچھ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی تو اپنے باپ کی مغفرت کے لیے دعا کی تھی تو اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ جس میں اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب والد کو بہت سمجھایا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اچھا میں اللہ سے دعا کرتا ہوں وہ آپ کو ہدایت دے لیکن جب ان کے والد کفر کی غلاظت سے نہ نکل سکے اور فوت ہوگئے تو پھر ان کے باپ کا دوزخی ہونا یقینی ہوگیا تب انہوں نے دعائے مغفرت باپ کے لیے بند کردی تھی۔ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بےحد نرم دل اور متحمل مزاج تھے مگر کیونکہ کفار اور مشرکین ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اس لیے اس کی مغفرت کی دعا اللہ کے کام میں دخل اندازی ہوجاتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ سے وعدہ بھی کیا تھا کہ میں آپ کے لیے دعا کروں گا۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ باپ کفر کی حالت میں ہی مرگیا ہے تو پھر وہ اس سے بیزار ہوگئے اور ان کے معاملہ کو اللہ کے سپرد کرکے خود ان کے معاملہ سے بری ہوگئے، یعنی مغفرت کی دعا نہ کی۔ اس لیے اللہ رب العزت نے مشرک، منافق، کافر اور فاسق کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا سے منع کردیا، کیونکہ ان لوگوں کے لیے جہنم کا عذاب ضروری کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے : ” اس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پائوں جکڑے ہوئے ہوں گے تارکول کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے۔ اور آگ کے شعلے ان کے چہروں پر چھائے ہوئے ہوں گے یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ ہر جہنمی شخص کو اس کے کرتوت کا بدلہ دے گا بیشک اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ “ ( سورة ابراہیم آیات : 51-50-49)
Top