Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 124
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًا١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا مَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : نازل کی جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورة فَمِنْھُمْ : تو ان میں سے مَّنْ : بعض يَّقُوْلُ : کہتے ہیں اَيُّكُمْ : تم میں سے کسی زَادَتْهُ : زیادہ کردیا اس کا هٰذِهٖٓ : اس نے اِيْمَانًا : ایمان فَاَمَّا : سو جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے فَزَادَتْھُمْ : اس نے زیادہ کردیا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّھُمْ : اور وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے ہیں
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو بعض منافق مذاقاً کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کردیا ہے ؟ سو جو ایمان والے ہیں ان کا تو ایمان زیادہ ہوا اور وہ خوش ہوتے ہیں۔
وحی کے نزول پر منافقوں کے تبصرے تشریح : ان آیات میں منافقین کی سوچ کے بارے میں بتایا گیا ہے یہ موجودہ سوسائٹی میں بھی واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ عہد رسالت میں جب وحی نازل ہوتی تو منافق لوگ بجائے اس کو سمجھنے اور سبق حاصل کرنے کے الٹا مذاق اڑاتے کیونکہ ان کی عقل سمجھ اتنی نہ تھی کہ وہ وحی الٰہی اور اس کے بہترین اثرات کو سمجھ سکتے جو مومنین کے دلوں پر ہوتے۔ مومنین جیسے جیسے کلام الٰہی سنتے ہیں۔ ان کے دل نور ایمان سے اور بھی روشن ہوجاتے ہیں اور ان کا رابطہ اللہ کے ساتھ اور بھی مضبوط ہوجاتا ہے اور اپنے ایمان و یقین کے انعامات ان پر اور بھی واضح ہوجاتے ہیں اور وہ زیادہ سکون اور یقین کے ساتھ اللہ کی فرمانبرداری میں لگ جاتے ہیں۔ جبکہ منافقین کے دل کا مرض، گناہ و نافرمانی، کفر و شرک کی غلاظت کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے لوگ نہ تو روشنی دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی دل کو صاف کرتے ہیں، اس لیے ان کے دلوں پر کفر و شرک کی غلاظت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہوشیار کرنے کے لیے سال میں ایک یا دو بار مصیبت میں مبتلا ضرور کرتے ہیں کہ شاید یہ منافق لوگ توبہ کرلیں اور نیکی اختیار کرلیں۔ مگر یہ لوگ بالکل بگڑ چکے ہیں اور ہرگز نصیحت حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ جب بھی وحی نازل ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اعلان کرتے تاکہ سب کو اکٹھا کرکے اللہ کا کلام سنا دیں۔ تو یہ لوگ اپنی منافقت چھپانے کے لیے جاتے ضرور مگر نہ دھیان سے سنتے اور نہ وہاں زیادہ دیر ٹھہرتے بلکہ فوراً ہی نظر بچا کر وہاں سے کھسک جاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے خبیث فطرت لوگ کبھی بھی کسی اچھی اور پاک محفل میں بیٹھ ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کو نہ تو نیکی سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کا دل ہی مانتا ہے۔ اس لیے کہ وہ عقل کے اندھے ہوتے ہیں اور اسی اندھیرے میں وہ خوش ہوتے ہیں تو اللہ بھی ناراض ہو کر ان کے کفر اور اندھیرے میں اضافہ کردیتا ہے۔
Top