Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام ! اب) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری اور (جنگ کی تیاری ہے) ۔
سورة التوبۃ اس سورت کے دو نام ہیں ایک تو توبہ اور دوسرا براءت۔ وجہ یہ ہے کہ کچھ مخلص اہل ایمان کو معافی ملی اور براءت اس لیے کہ مشرکین کے تمام معاہدے منسوخ کردیے گئے۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کی تمام مشکلات تقریباً فتوحات میں تبدیل ہونے لگیں اور مسلمان ایک مضبوط ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھرنے شروع ہوئے۔ اس سورت کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی جاتی۔ وجہ یہ ہے کہ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے آغاز میں بسم اللہ نہ پڑھی ہے اور ہی نہ لکھوائی۔ ترتیب کے لحاظ سے یہ نویں سورت ہے۔ اس میں سولہ (16) رکوع اور ایک سو انتیس (129) آیات ہیں اور یہ مدنی سورت ہے کیونکہ یہ سورت 9 ھ میں نازل ہوئی۔ اس سے پہلے 6 ھ میں صلح حدیبیہ ہوچکی تھی۔ ہوا اس طرح کہ بنو خزاعہ نے مسلمانوں سے معاہدہ کرلیا اور بنو بکر نے قریش سے۔ دو سال بعد بنو بنکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس معاہدے کا خیال نہ کیا کہ مسلمان اور قریش کا معاہدہ ہوچکا ہے کہ دس سال تک وہ آپس میں لڑائی نہ کریں گے اور ایک دوسرے کے دشمن کی مدد نہ کریں گے۔ مگر قریش نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے بنو بکر کی مدد کی، اب معاہدے کے مطابق بنو خزاعہ کی مدد مسلمانوں کے لیے ضروری ہوگئی تھی، لہٰذا یہ معاہدہ ختم ہوگیا۔ تو آپ ﷺ نے رمضان 8 ھ میں مکہ پر حملہ کرکے بڑی آسانی سے اسے فتح کرلیا۔ 9 ھ میں سورت براءت نازل ہوئی۔ مکہ فتح ہوچکا تھا اور اب مسلمانوں کی ایک مستحکم ریاست کا بندوبست کرنا ضروری تھا۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے بعد بہترین تدبیریں اختیار کی گئیں جس کے نتیجہ میں دو سال کے اندر مسلمان اس قدر مضبوط ہوگئے کہ پورا عرب ان کے قبضہ میں آگیا اور ایک زبردست انقلاب برپا ہوگیا جس کے سامنے جاہلیت کی تمام رسمیں، عادات، عبادات اور خیالات سب کچھ بدل دیا گیا۔ یہ انقلاب نہ تو آسانی سے آیا اور نہ ہی بغیر منصوبہ بندی کے آیا۔ بلکہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کس کس طرح صبر و استقامت سے اس مقام تک پہنچے۔ ان کی تئیس سال کی محنت رنگ لائی اور پورا عرب اسلام کے جھنڈے تلے آگیا۔ اب مسلمان ایک مضبوط قوم بن چکے تھے، لہٰذا مزید کامیابیوں اور ترقیوں کے لیے مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے ہدایات دی جا رہی ہیں۔ 1: عرب سے شرک کو بالکل مٹا دیا جائے۔ 2: خانہ کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں دیا جائے۔ 3: عربی تمدنی زندگی کی تمام رسومات کو ختم کردیا جائے۔ 4: اسلام کا مشن عرب سے باہر پھیلایا جائے۔ جس میں سب سے پہلے روم اور ایران کی بڑی سلطنتیں تھیں۔ حکم دیا گیا کہ ان تمام سے ٹکرا جائیں ان کو بزور شمشیر اپنے تابع کریں۔ مذہب کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف ان کو اپنا تابع بنا کر ان کو اسلامی اقتدار کا مطیع بنا لیں تاکہ گمراہیوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔ 5: منافقین کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے تاکہ یہ اندرونی خطرہ ختم ہوجائے۔ 6: سچے مسلمان جو ابھی تک کمزور یا کم ہمت ثابت ہو رہے تھے ان کا علاج کیا جائے اور ان کو تیار کیا جائے کہ وہ اسلام کے لیے جان و مال، محنت اور ہمت سے جی نہ چرائیں بلکہ بےدریغ عمل کے میدان میں کود پڑیں اور بہترین، بہادر اور پکے مسلمانوں میں شامل ہو کر آنے والے تمام مراحل سے ٹکرا جائیں کیونکہ اب ایک عرب، یعنی مسلم سٹیٹ کو پوری غیرمسلم دنیا سے ٹکرانا تھا اور اس میں کسی کی سستی اور کمزوری ناقابل قبول تھی۔ اس سورت میں مذکورہ بالا مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ حکومت، سیاست اور مذہب کے بہترین اصول بتائے گئے ہیں، ملاحظہ ہو۔ عہد ختم کرنے کا اعلان تشریح : جیسا کہ خلاصہ میں بتایا جا چکا ہے کہ پوری سورة التوبہ میں چند غزوات، جن میں اخلاقی، حربی اور دینی مسائل کا ذکر ہے اور پھر سوائے چند کے تمام قبائل سے معاہدات ختم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے، پھر معاہدہ کی منسوخی کا اعلان ذی الحجہ 9 ھ میں کیا گیا۔ یہ سورة 9 ھ میں اس وقت مدینہ میں نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر ؓ کو امیر حج بناکر مسلمانوں کے ساتھ حج کے لیے روانہ کرچکے تھے۔ تو سیدنا علی ؓ کو بڑا اہم اعلان کرنے کے لیے روانہ کیا گیا۔ اس اعلان میں بتایا گیا کہ -1 بیت اللہ کے گرد برہنہ ہوکرطواف کرنا منع ہے۔ -2 جس کافر کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا کوئی معاہدہ ہے وہ مدت مقررہ تک بحال رہے گا۔ -3 جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں اس کے لیے چار ماہ کی مدت ہے یا تو وہ اسلام قبول کرلیں اور وہ جنت میں داخل ہوں گے یا وہ یہاں (جزیرۃ العرب) سے چلے جائیں۔ -4 اس سال کے بعد کوئی مشرک اور مسلمان (حج میں) جمع نہ ہونگے۔ (جامع ترمذی) اس اعلان کے بعد مشرکین کے لیے یہ قانون نافذ ہوگیا کہ وہ عرب میں نہیں رہ سکتے۔ البتہ ان کو چار ماہ کی مہلت یوں دی گئی کہ یہ اعلان 10 ذی الحجہ 9 ہجری کو ہوا۔ اس وقت سے لے کر 10 ربیع الثانی 10 ہجری تک چار مہینے کی مہلت دی گئی تاکہ اچھی طرح غور و فکر کرلیں۔ لڑنا چاہیں تو تیار ہوجائیں۔ ملک چھوڑنا ہو تو جائے پناہ ڈھونڈ لیں۔ اسلام قبول کرنا چاہیں تو سوچ سمجھ کر اسلام قبول کرلیں۔ (از تفہیم القرآن) یعنی حج کے موقع پر عام اعلان کردیا گیا کہ اب کے بعد ہماری مشرکوں سے کوئی صلح نہیں مشرک اللہ کو ہرگز ہرا نہیں سکتے۔ اگر توبہ کرلیں اسلام میں داخل ہوجائیں تو بہتر ہے ورنہ عرب کو تو کفار و مشرکین سے ضرور خالی کروا لیا جائے گا۔ کیونکہ اب یہ بالکل مقدس سرزمین بن چکی ہے یہاں سوائے پاکیزہ لوگوں کے کوئی مشرک نہیں رہ سکتا۔ اور پھر اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اس دردناک عذاب کا پیغام بھی بھیج دیا جو کہ کفار و مشرکین کو موت کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے دیا جائے گا۔ 22 سال کی مسلسل جدوجہد اور پریشانیوں کے بعد یہ دن مسلمانوں کو دیکھنا نصیب ہوا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے حسن اخلاق، حسن کردار اور اتحاد و یقین محکم کی برکات اور اللہ کے فضل و کرم سے کامیابیاں ہی کامیابیاں ملتی چلی گئیں۔ اگر مڑ کر تاریخ دیکھیں تو ہمیں صرف تنہا ایک مرد کامل دکھائی دے گا اور وہ ہیں پیارے رسول۔ رسول اللہ ﷺ جو توحید کی شمع لے کر اٹھے اور پوری دنیا کو روشن کردیا۔ صرف ایک بندہ اتنی بڑی کفر و شرک کی دنیا سے ٹکرا گیا اور ہر طرف فتح کے جھنڈے گارڈ دیے۔ فتح مکہ اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور اسلام کی بہترین فتح اور آئندہ فتوحات کی بنیاد ثابت ہوئی۔ اس آیت میں حج اکبر کا ذکر ہے۔ یہ ذی الحجہ کی خاص تاریخیں مقرر ہیں۔ ، یعنی 10-9-8 ان ایام میں تمام حاجی عرفات اور پھر منیٰ کے میدان میں جمع ہوتے ہیں اور ارکانِ حج ادا کرتے ہیں اور یہ اعلان خاص حج اکبر میں کیا گیا تھا جو کہ فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ھ میں کیا گیا۔
Top