Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 75
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا١ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا١ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ
وَمَا : اور کیا لَكُمْ : تمہیں لَا تُقَاتِلُوْنَ : تم نہیں لڑتے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَ : اور الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : کمزور (بےبس) مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَ النِّسَآءِ : اور عورتیں وَ الْوِلْدَانِ : اور بچے الَّذِيْنَ : جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں (دعا) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخْرِجْنَا : ہمیں نکال مِنْ : سے ھٰذِهِ : اس الْقَرْيَةِ : بستی الظَّالِمِ : ظالم اَهْلُھَا : اس کے رہنے والے وَاجْعَلْ : اور بنا دے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس وَلِيًّۢا : دوست (حمایتی) وَّاجْعَلْ : اور بنادے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس نَصِيْرًا : مددگار
اور تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں نہیں لڑتے حالانکہ مردوں ، عورتوں اور بچوں میں سے کمزور کہتے ہیں ، اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال کر اس کے رہنے والے ظالم لوگ ہیں اور بنا دے ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی سرپرستی کرنیوالا۔ اور بنادے ہمارے لیے اپنی طرف سے مددگار
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول کی اطاعت کو فرض قرار دیا۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا انحصار اطاعت ہی پر ہے۔ جن لوگوں کو اطاعت نصیب ہوجاتی ہے ، ان کے دین میں پختگی آجاتی ہے ، اجرِ عظیم کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس کے نتیجے میں اطاعت گزار لوگوں کو آخرت میں انبیائ ، اصدقا ، شہدا اور صالحین کی رفاقت نصیب ہوجاتی ہے۔ معاملات کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ کفر و شرک کے علمبرداروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔ پھر اہل ایمان کو خصوصی خطاب فرمایا خذوا حذرکم یعنی دشمن سے بچاؤ کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرلو۔ اسلحہ جمع کرلو اور پھر جنگی حکمت عملی کے تحت خواہ گروہوں کی صورت میں دشمن پر حملہ آورہوجاؤ یا پوری طاقت کے ساتھ یکبارگی ٹکراؤ جاؤ ، حالات کے مطابق دونوں صورتیں روا ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دشمن کے مقابلہ سے گریز کرنے والوں کو منافقین کے زمرہ میں شمار کیا اور فرمایا کلمہ پڑھنے کے باوجود بعض لوگ منافق ہیں۔ فرمایا مقابلے میں اگر مسلمانوں کو نقصان ہوجائے تو منافقین خوش ہوتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم ان کے ساتھ شامل نہیں تھے ، ورنہ ہم بھی مصیبت میں گرفتار ہوجاتے۔ برخلاف اس کے اگر مسلمان دشمن سے مقابلے میں کامیاب لوٹیں تو یہ لوگ کفِ افسوس ملتے ہیں اور حسرت کے ساتھ کہتی ہیں کاش کہ ہم بھی مال غنیمت اور دیگر مفاد میں مجاہدین کے ساتھ شریک ہوتے۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دی ہے۔ اور فرمایا کہ اہل ایمان قرآنی اصولوں پر مبنی اخلاق اور آخرت کی فلاح کے لیے اپنی ہر چیز قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ بوقت ضرورت جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جہاد اور اس سے متعلقات کا سلسلہ آگے تقریب چھ رکوع تک چلے گا۔ آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مومن محض اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے ، اس کے پیش نظر کوئی ذاتی مفاد ہرگز نہیں ہوتا اور دوسری بات یہ ہے کہ مظلوم ظلم سے نجات دلانا اہل ایمان کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ ارشاد ہوتا ہے ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں لڑائی نہیں کرتے۔ یہ پہلی بات ہے۔ فی سبیل اللہ کا ذکر قرآن پاک میں کثرت سے ملتا ہے اور اس سے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اہل ایمان کی دشمن کے ساتھ جنگ نہ کسی ذاتی مفاد کے لیے ہے ، نہ ہوس ملک گیری ہے اور نہ نسلی ، وطنی یا زبان کی بنیاد پر کسی کی مخالفت مقصود ہے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کا واحد مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ اللہ کا دین تمام ادیان پر غالب آجائے اور اہل دنیا پر ثابت ہوجائے کہ ” کلمۃ اللہ ہی العلیا “ ہر مقام پر اللہ کی بات کو ہی برتری حاصل رہے۔ اسی موضوع کو سورة فتح میں یوں بیان کیا گیا ہے ” ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ “ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دیکر بھیجا ہے تاکہ اسے ادیانِ عالم پر غالب کیا جاسکے۔ چناچہ جب تک مسلمان جہاد کے لیے کمربستہ رہے ، کامیابی ان کے قدم چومتی رہی۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد قائم تھا لہٰذا مسلمانوں کو ہر میدان میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اس وقت نہ کوئی فرقہ تھا ، نہ پارٹی اور نہ اہل اسلام میں اختلاف رائے تھا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا اپنا زمانہ مبارک پھر شیخین حضرات ابوبکر صدیق ؓ ، اور فاروق اعظم ؓ کا دور خلافت اور حضرت عثمان ؓ کے ابتدائی چھ سال کا عرصہ تاریخ اسلام میں نمونہ کے طور پر محفوظ ہے جو امور اس نمونہ کے مطابق انجام دیے جائیں گے ، وہی درست ہوں گے ، اس نمونہ سے ہٹ کر انجام پانے والے امور کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔ حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے درمیان جنگ صفین تک پچاس سال کے عرصہ میں مسلمان آدھی دنیا پر چھا گئے تھے ، دلیل اور حجت کے اعتبار سے تو حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے ، تاہم مذکورہ پچاس سالہ دور میں اہل اسلام کو دنیا میں سیاسی غلبہ بھی حاصل تھا۔ اس لحاظ سے جہاد کو عبادت کا درجہ حاصل ہے فقہائے کرام باب باندھ کر سمجھاتے ہیں کہ عقیدے کی درستگی کے بعد نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج اور جہاد پانچ عبادات فرض ہیں۔ عام طور پر جہاد فرض کفایہ میں آتا ہے۔ جب مسلمانوں کا ایک گروہ جہاد کے لیے ہر وقت تیار ہو تو پھر تمام لوگوں پر جہاد ضروری نہیں رہتا۔ اور بعض اوقات اگر حالات کا تقاضا ہو تو جہاد ہر مسلمان پر فرض عین بھی ہوجاتا ہے ان آیات میں اسی بات کی توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمان بوقت ضرورت اللہ کی راہ میں کیوں نہیں لڑتے ، دین حق کی تبلیغ کا فریضہ کتنے لوگ ادا کرر ہے ہیں۔ ذاتی مفادات کے لیے کتنے لمبے لمبے سفر کیے جاتے ہیں مگر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے۔ کفر اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہے مگر مسلمان لہو و لعب اور کھیل تماشے میں مصروف ہے۔ وہ دین حق کو غالب کرنے کے سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنے سے کیوں گریز ہے۔ جہاد کی راہ میں رکاوٹ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) ہمارے انقلاب پسند اکابرین میں سے ہیں آپ انگریز کے سخت خلاف تھے۔ وہ آپ سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ حجاز کے قیام کے دوران مولانا کے پیچھے جاسوس بھیجتے تھے تاکہ معلوم کیا جاسکے ہمارے خلاف کیا تدبیر کر رہے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ جہاد کے راستے میں رکاوٹ بننے والا ہر فرد منافق ہے ، خواہ وہ مولوی ہو یا پیر۔ سلطان ہو یا بادشاہ ، سرمایہ دار ہو یا دہریہ۔ فرماتے ہیں کہ ملوک و سلاطین اکثر جہاد کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور انہوں نے فی سبیل اللہ کا نظریہ ہی خراب کردیا ہے۔ ان کے نزدیک صحیح اور غلط کا کوئی معیار مقرر نہیں ، بیت اللہ کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر اپنی من مانی کارروائیوں پر صرف کرتے ہیں۔ انہوں نے دین کا نظام ہی درہم برہم کردیا ہے ان کی حمایت علمائے سو کرتے ہیں ، پیر ان کی پشت پر ہوتے ہیں اور اس طرح وہ غلط ملط فتوے حاصل کر کے اپنے مذموم عزائم پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور اس طرح عوام بیچارے ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں صاحب اقتدار اپنے اقتدار کی بقا کے لیے ہر جائز ناجائز کام کر گزرتا ہے اور پھر عالم سطح پر اقتدار کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ آج دنیا میں روس اور امریکہ کے درمیان کیا ہو رہا ہے ، محض اقتدار کی ہوس ہے ہر کوئی دنیا میں اپنی چودھراہٹ چاہتا ہے۔ چین اور روس ایک ہی اشتراکی نظریہ کے حامل ہوتے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ محض اقتدار کی بھوک ہے کہ کسی طرح دنیا میں برتری حاصل ہوجائے زیادہ سے زیادہ مالک ان کے ہمنوا ہوجائیں۔ یہ سب مادیت پرستی کا نتیجہ ہے۔ کافر مال و دولت اور اقتدار کے لیے جنگ لڑتا ہے۔ مگر ایک سچا مسلمان اللہ کے دین کی خاطر جہاد کرتا ہے۔ کفر و اسلام کا یہی طرہ امتیاز ہے۔ نظریہ حق و باطل تاریخ علام پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غیر اقوام محاذ جنگ پر جانے والے سپاہیوں کے لیے عیاشی کے تمام سامان مہیا کرتی ہیں کیونکہ ان کا مقصد ملک گیری ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہزاروں ٹن شراپ سپاہیوں کو پلائی گئی ، حتیٰ کہ ان کی عیاشی کے لیے عورتیں بھی مہیا کی گئیں اس جنگ میں امریکہ کے جاپان پر حملہ کے نتیجے میں سوا لاکھ حرامی بچے پیدا ہوئے ، اتنی کثیر تعداد میں جاپانی عورتیں امریکی سپاہیوں کی ہوس کانشانہ بنیں۔ یہ کوائف تو صرف پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کے ہیں۔ اس کے علاوہ کیا کچھ ہوا ، وہ تو اللہ ہی کے علم میں ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے ان عورتوں کے لیے انعامات کا اعلان کیا تھا جو فوجی سپاہیوں کی خوش طبعی کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں دوسری طرف فی سبیل اللہ کا نظریہ ہے کوئی بدکاری اور عیاشی نہیں محض اللہ کے دین کی سربلندی مطلوب ہے ، جب محمد بن قاسم حملہ آور ہوا توہندوؤں کی حسین ترین لڑکیاں استقبال کے لیے موجود تھیں مگر کسی سپاہی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ آخر کیا وجہ تھی ان کا ایک ہی مشن تھا اور وہ یہ دین اسلام کو دنیا میں غالب کرتا ہے اور اس کی تعلیمات کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ انہوں اتنا لمبا سفر اللہ کے دین کی خاطر کیا ہے ، نہ کہ ذاتی مفاد اور نمود و نمائش کے لیے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دنیا کی خاطر جہاد کرنے والے اور اپنی پہلوانی کا سکہ بٹھانے والے مجاہد کو اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ جاؤ تمہارے لیے میرے پاس کچھ اجر نہیں تم نے ریاکاری کے لیے جہاد کیا تھا ، میری رضا مقصود نہ تھی ، پھر حکم ہوگا کہ اسے اٹھا کر جہنم میں پھینک دو ۔ اغیار کے پروگرام جوں جوں مسلمان جہاد کے فریضہ سے غافل ہوئے ہیں ، غیر اقوام نے اسلام پر شب خون مارنا شروع کردیا ہے وہ تو کفر کے پروگرام کو دنیا میں غالب دیکھناچاہتے تھے۔ اس کے لیے کفار کی تمام طاقتیں مشترکہ طور پر کوشش کر رہی ہیں مسلمانوں کو عیسائی اور مرزائی بنایا جا رہا ہے کچھ نیم عیسائی اور کچھ دہریہ ہوچکے ہیں۔ سکول اور فری شفاخانے قائم کئے جا رہے ہیں اور خدمت خلق کی آڑ میں مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں اس کے برخلاف مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ اپنی تمام توانائیاں عیاشی اور فحاشی پر خرچ کر رہے ہیں۔ کھیل تماشے سے دل بہلا رہے ہیں۔ بڑی بڑی کاروں اور کوٹھیوں کی ریس لگی ہوئی ہے۔ ہر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں بھاگا جا رہا ہے۔ اغیار انہیں دین سے برگشتہ بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ جہاد سے منہ موڑ چکے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے غلام بن چکے ہیں۔ رفع التظالم مظلوم کی مدد نزول قرآن کے زمانے میں مسلمانوں کا ایک مظلوم طبقہ مکہ میں کفار کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا تھا۔ مظلوم کو ظلم سے نجات دلانا جہاد کا دوسرا سبب ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں 1 ؎ حجۃ اللہ البالغہ ص 337 2 ؎ بخاری ص (فیاض) کہ بیشک انبیاء کی بعثت کے مقاصد میں یہ بات داخل ہے کہ رفع التظالم من بین الناس یعنی مظلومین کو ظلم سے نجات دلائی جائے ، جس طرح دین حق کی تبلیغ انبیا کا فرض منصبی ہے اسی طرح ظلم کی بیخ کنی بھی ان کے فرائض میں داخل ہے۔ بخاری شریف کی روایت 2 ؎ میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے صحابہ سے جن امور کی بیعت لی تھی ، ان میں عون الضعیف ونصرالمظلوم یعنی کمزوروں کی اعانت اور مظلوم کی مدد بھی شامل تھی۔ چناچہ فتاویٰ کی تمام کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ اگر کوئی ظالم مشرق میں کسی مسلمان عورت کو قیدی بنا لے تو مغرب کے سارے مسلمانوں پر فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس مظلوم کو رہا کرائیں ، ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔ آج دنیا میں لاکھوں مظلوم ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ گزشتہ تین سال میں دس لاکھ کابلی ہلاک ہوچکے ہیں جس ہزار زندہ باشندوں کو گڑھوں پر پھینک کر اوٹر مٹی ڈال دی گئی اور وہ بیچارے زندہ درگور ہوگئے۔ ان پر ہونے ولاے ظلم کا جواب کون دے رہا ہے ان کی تکلیف کا کس کو احساس ہے عالمی سطح پر کانفرنسیں تو ہوتی ہیں مگر ان کے دکھ کا کیا مداوا ہوسکا ہے مسلمان ممالک ان کی کیا مدد کر پائے ہیں۔ محض بیان دینے سے کسی کی تکلیف رفع نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ جب مصریوں پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے تو عالم اسلام نے کیا مدد کی۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے نہر سویز پر سوا لاکھ مصریوں کو ہلاک کردیا ، اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا۔ مگر کون پوچھنے والا ہے۔ کمزوروں کی امداد ہمارا جزوِ دین ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے لا تظلم ولاتظلم یعنی نہ خود کسی پر ظلم کرو اور نہ کسی کے ظلم کو برداشت کرو۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے والا جذبہ مسلمانوں میں باقی نہیں رہا۔ امیر شکیب (رح) نے اپنی کتاب ” حاضر العالم الاسلامی “ میں لکھا ہے کہ جب اٹالین طرابلس میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے تھے تو میں نے اپنے قریب پچاس کے قریب ایسے نوجوان دیکھے جن کی شکل و صورت عربوں سے مشابہ نہ تھی۔ میں نے دریافت کیا ، تم کون لوگ ہو۔ کہنے لگے ہم کابل سے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے آئے ہیں۔ ظلم کے خلاف جذبہ انسانی ہمدردی انہیں کابل سے طرابلس لے گیا۔ مگر اب وہ چیز کہاں ؟ مکہ کے مظلوم مسلمان ہجرت مدینہ کے بعد بھی مسلمانوں کا ایک کمزور طبقہ مکہ میں رہ گیا تھا جو ہجرت پر قادر نہیں تھے اور کفار کے ظلم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ یہ کون لوگ تھے والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یہ مردوں عورتوں اور بچوں پر مشتمل ایک نہایت ہی کمزور طبقہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں اور میری والدہ انہی لوگوں میں شامل تھے کافروں نے انہیں زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور انہیں طرح طرح کی تکالیف دی جاتی تھیں سلمہ بن ہشام ؓ ، ولید بن ولید ؓ اور ابوجندل ؓ وغیرہ بھی انہی لوگوں میں شامل تھے۔ قیدوبند کے دوران یقولون وہ یوں دعائیں کرتے تھے۔ ربنا اخرجنا من ہذہ القریۃ الظالم اہلھا اے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے باشندے ظالم لوگ ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے تھے۔ اے مولا کریم ! واجعل لنا من لدنک ولیاً اپنی طرف سے ہمارا کوئی حمایتی بنا دے۔ جو ہمی اس ظلم سے نجات دلا سکے۔ و اجعل لنا من لدنک نصیراً اور اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی مددگار بنا دے۔ انہی حالات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی توجہ اس طرف دلا رہے ہیں کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی۔ خود حضور ﷺ بھی مدینے میں انکے لیے دعائیں کرتے تھے اور نماز میں قنوت نازلہ پڑھتے تھے۔ چناچہ یہ لوگ قید سے آزاد ہو کر مدینے پہنچ گئے۔ حضور ﷺ نے قنوت نازلہ پڑھنی چھوڑ دی تو صحابہ نے عرض کیا کہ حضور ! اب آپ قنوت کیوں نہیں پڑھتے۔ فرمایا دیکھتے نہیں جن لوگوں کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں ان میں سے ابن ہشام ؓ ولید ؓ اور ابوجندل ؓ وغیرہ مدینہ پہنچ چکے ہیں اور پھر جب مکہ فتح ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے حمایتی بھی پیدا کردیا۔ آپ نے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کو مکہ کا گورنر مقرر فرمایا۔ عتاب بن اسپد ؓ بڑے ذہین اور سنجیدہ قسم کے انسان تھے۔ انہوں نے مظلوموں کی خوب مدد کی اور احسن طریقے سے امن وامان قائم کیا ، اللہ نے ان کی یہ دعا بھی قبول فرما لی۔ اللہ اور طاغوت کے راستے آگے پھر وہی بات دہرائی جا رہی ہے الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اللہ جو اہل ایمان ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑائی کرتے ہیں ، ان کا مقصود و مطلوب محض رضائے الٰہی ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے دین کو غالب کرنا چاہتے ہیں۔ برخلاف اس کے والذین کفروا کفار کا شیوہ یہ ہے کہ یقاتلون فی سبیل الطاغوت وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں اور طاغوت کا معنی ہی یہ ہے کل ما اضل عن سبیل اللہ ہر وہ طاقت جو اللہ کے راستے سے روکتی ہے ، وہ طاغوت ہے۔ اس میں وہ ملوک ، سلاطین وغیرہ سب آجاتے ہیں جو اعلائے کلمۃ اللہ کے مخالف ہیں۔ شیطان بذات خود طاغوت ہے اور اس کا یہی مشن ہے۔ اللہ نے اپنے تمام انبیاء پر یہی وحی بھیجی ” ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت “ یعنی اللہ کی عبادت کرو اور طواغیت کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس کا مقصد طاغوتی پروگرام کا غلبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ اے ایمان والو ! فقاتلوا اولیاء الشیطن شیطان کے دوستوں سے مقابلہ کرو۔ ان کے خلاف جہاد کرو کیونکہ وہ اس کے حمایتی ہیں اور کفر کے پروگرام کو غالب کرنا چاہتے ہیں اور یاد رکھو ایمان والو ! ان کید الشیطن کان ضعیفاً شیطان کی تدبیر بالکل کمزور ہے اگرچہ شیطان کے مکرو فریب کا جال بہت وسیع ہے مگر اللہ کے نزدیک اس کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے سورة یوسف میں عورتوں کے مکروفریب کے متعلق فرمایا ان کیدکن عظیمٌ کہ تمہاری مکاریاں بہت زیادہ ہیں۔ شیطان عورتوں ہی کو اپنا جال بنا کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے لہٰذا وہ عورتوں سے بھی بڑا دھوکہ باز اور مکار ہے۔ تاہم اگر مومن صحیحر استے پر گامزن ہوجائیں۔ دین کے غلبے کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو پھر اللہ ان کا حمایتی بن جائیگا اور جس کا حمایتی خود اللہ بن جائے ، شیطان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی لیے فرمایا کہ شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ ” ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم و ان یخذلکم فمن ذالذی ینصرکم من بعدہ اگر خدا تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال ہوگی تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر تمہاری بدعقیدگی اور بدعملی کی وجہ سے خدا تمہیں رسوا کر دے تو اس کے علاوہ کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔ تم لاکھ دنیا کی طاقتوں پر بھروسہ کرو اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا ، تمہیں عزت و آبرو حاصل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی حمایت اور مدد حاصل کرنے کے لیے صراط مستقیم پر گامزن ہوجاؤ ۔
Top