Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا : صرف الصَّدَقٰتُ : زکوۃ لِلْفُقَرَآءِ : مفلس (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : مسکین (جمع) محتاج وَالْعٰمِلِيْنَ : اور کام کرنے والے عَلَيْهَا : اس پر وَالْمُؤَلَّفَةِ : اور الفت دی جائے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَفِي : اور میں الرِّقَابِ : گردنوں (کے چھڑانے) وَالْغٰرِمِيْنَ : اور تاوان بھرنے والے، قرضدار وَفِيْ : اور میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر فَرِيْضَةً : فریضہ (ٹھہرایا ہوا) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
صدقات زکوٰۃ (اور خیرات) تو مفلسوں، محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہو، غلاموں کے آزاد کرانے، قرض داروں کے قرض ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
زکوٰۃ کے مصارف تشریح : جیسا کہ پچھلی آیات میں بتایا گیا ہے کہ منافقین صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ میں سے زیادہ سے زیادہ کی خواہش کرتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے اور صاف صاف اصول بتا دیے ہیں کہ صدقات و زکوٰۃ کس طرح تقسیم کی جانی چاہیے ؟ رب العالمین انسانوں کی تمام مشکلات، پریشانیوں، دقتوں اور مجبوریوں کو خوب اچھی طرح جانتا ہے اس کی حکمت و دانائی بےمثال ہے اسی لیے اپنے بندوں کی سہولت اور آسانی کا خیال کرتے ہوئے بہترین اصول نازل فرمائے ہیں تاکہ ان کی مدد ہوجائے۔ زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو امیروں کو مشکلات اور بےراہروی سے بچانے کے لیے عائد کی گئی ہے اور غریبوں کی مدد کے لیے ان کو دیا جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں باہمی ہمدردی اور رواداری کا راستہ نکل آتا ہے لالچ اور بیروزگاری کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔ اور پھر اس کو تقسیم کرنے اور خرچ کرنے کے مصارف بھی بیان فرما دیے تاکہ یہ مال معاشرے کی صحیح تشکیل کے لیے خرچ کیا جائے اور ضائع نہ ہوجائے۔ یہاں ان لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو زکوٰۃ کے حقدار ہیں اس میں آٹھ قسم کے لوگ آتے ہیں۔ -1 فقیر، جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ -2 مسکین، ، یعنی اس کی حاجات پوری نہیں ہوسکتیں۔ -3 عامل، ، یعنی وہ ملازمین جو زکوٰۃ اکٹھی کرنے، حساب کتاب رکھنے اور تقسیم کرنے پر معمور ہوں۔ -4 مئولفہ القلوب، لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے کسی بھی صورت سے ان کی ضروریات پوری کرنے پر۔ -5 غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے، یعنی غلامی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے رقم خرچ کی جائے۔ -6 ایسے سفید پوش لوگ جو کسی اچانک آفت کا شکار ہوگئے ہوں اورا ن کی امداد ضروری ہو یا ان پر قرض اتنا ہے جو اپنے روز مرہ خرچ سے ادا نہیں کرسکتے۔ -7 اللہ کے کاموں میں مصروف لوگ مثلاً جہاد، رفاع عام وغیرہ۔ -8 مسافر جو کسی وجہ سے مجبور ہوجائے اور اس کو رقم کی ضرورت پڑجائے۔ ان کی تفصیلات وقتاً فوقتاً کی جاتی رہیں گی۔ فی الحال اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ زکوٰۃ موجودہ نظام معیشت کا ایک خاص اور بنیادی قانون ہے، یعنی Circulation of Wealth جس کو ہم پیسہ کی گردش کہہ سکتے ہیں۔ زکوٰۃ اسی اصول کو بحال کرنے میں سے ایک اصول ہے اور ارکان اسلام کا ایک خاص رکن ہے جو باقی تمام ارکان کی طرح انسان، معاشرہ، ملک اور دنیا کی بہتری اور خوشحالی کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کی تاکید قرآن پاک میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ” نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ “ ( سورة البقرہ آیت : 83)
Top