سورة الفاتحۃ مکیۃ
سورة 1 فاتحہ 2 مکہ 3 میں نازل ہوئی۔
آیات و رکوع : اس میں 7 آیتیں 5 اور ایک رکوع ہے 4 25 لفظ۔ 6۔ 123 حروف 7۔
سورة الفاتحۃ1 سورة کے لفظی معنی بلندی یا منزل کے ہیں۔ السورۃ الرفعۃ (لسان) السورۃ المنزلۃ الرفیعۃ (راغب) جس طرح دنیا کی دوسری کتابیں مختلف بابوں میں تقسیم ہوتی ہیں، قرآن کے ہر باب کو سورة کہتے۔ گویا ہر سورة ایک بلند منزل کا نام ہے۔ وبھا سمیت السورۃ من القران اے رافعتہ (لسان) بہ سمیت سورة القرآن لا جلال ورفعتہ (تاج) سورة کے دوسرے معنی شہر پناہ کی دیوار کے بھی ہیں سورالمدینۃ حائطھا (راغب) سورة قرآنی کو سورة اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ گویا وہ فصیل شہر کی طرح اپنے مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید کو مختلف سورتوں میں تقسیم وترتیب رسول اللہ ﷺ خود فرماگئے تھے۔ آنحضور ﷺ ہی کے ارشاد کے مطابق ایک سورة شروع کی جاتی تھی اور دوسری ختم۔ کل قرآنی سورتوں کی تعداد 114 ہے۔
2 فاتحہ کے لفظی معنی ہیں ابتدا کرنے والی کے۔ قرآن مجید کی اس ابتدائی سورت کو بھی اسی لیے الفاتحہ کہتے ہیں۔ یہ گویا دیباچہ قرآن ہے۔ سورتوں کے نام بھی رسول اللہ ﷺ ہی کے رکھے ہوئے ہیں۔ اکثر ایک ایک سورت کے کئی کئی نام روایت ہوئے ہیں۔ اس فاتحۃ الکتاب کے بھی متعدد نام احادیث میں آئے ہیں۔ سورة ہ الشفاء سورة وافیہ، ام القرآن وغیرہ قرطبی نے 12 نام گنائے ہیں۔ مشہور ترین نام یہی الفاتحہ ہے۔ سورة کے فضائل سے احادیث لبریز ہیں۔ اہمیت خاص اسی سے ظاہر ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اس کا پڑھنا واجب ہے۔ بلکہ شافعیہ کی تحقیق میں فرض ہے۔ کوئی نماز بغیر قرآن کے اس جزو کے مکمل نہیں ہوتی۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ شیطان چار مرتبہ خاص طور پر رویا چلایا ہے، اور ان چار میں سے ایک موقع نزول سورة فاتحہ کا ہے۔ سورة فاتحہ گو صورۃ مختصر ہے لیکن بلحاظ معنویت و جامعیت گویا دریا کوزہ میں بند ہے۔ منکرین و مخالفین تک اس کے ایجاز کے اعجاز قائل ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں ہے۔ ” حمد باری کی یہ زبردست مناجات۔۔ سلیس اتنی کہ مزید تشریح سے بےنیاز۔ اس پر معنویت سے لبریز “۔ (جلد 15 صفحہ 903) طبع یازدہم)3 قرآنی سورتوں کی ایک اہم تقسیم بہ لحاظ زمانہ نزول کی گئی ہے۔ جو سورتیں قبل ہجرت نبوی یعنی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ قیام مکہ میں نازل ہوئیں، خواہ ان کا نزول حدود شہر مکہ سے باہر ہی ہوا ہو مکی کہلاتی ہیں۔ اور جو سورتیں بعد ہجرت نبوی، یعنی زمانہ قیام مدینہ میں نازل ہوئیں، وہ مدنی کہلاتی ہیں، خواہ ان کا نزول حدود شہر مدینہ سے باہر ہی ہوا ہو۔ لیکن یہ تقسیم صرف عمومی حیثیت سے ہے۔ ورنہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدنی سورت کے اندر مکی آیتیں رکھا دی ہیں، یا اس کے برعکس۔ ربط مضمون ومناسبت مقام کا صحیح تر ولطیف تر احساس رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کس کو ہوسکتا تھا ؟ اس لئے کسی کو متعین آیت کے باب میں اس کے مکی یا مدنی ہونے کا فیصلہ حزم کے ساتھ کرنا دشوار ہے۔ روایتیں جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں، کوئی درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی نہیں ہیں۔ محض مفید ظن ہیں۔ مفید یقین نہیں۔ اور اس قسم کے عقلی وقیاسی معیار کی مثلا (آیت) یایھا الذین امنوا سے شروع ہونے والی آیتیں لازمی طور پر مدنی ہوں گی اور (آیت) یایھا الناس سے شروع ہونے والی لازمی طور پر مکی، محض اکثری وتخمینی ہیں۔ کلی اور قطعی نہیں۔ اور محض ان روایات ونظریات کے ماتحت کسی آیت پر جزم ووثوق کے ساتھ کوئی حکم لگا دینا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید کسی جدید ترتیب پر اسے ترتیب نزولی کا نام دے کر آمادہ ہوجانا بڑی ہی جسارت کا کام ہے۔ اصل میں یہ بلا مسیحیوں کے ہاں سے آئی ہے کہ انہیں نے اپنے ہاں کے قدیم وجدید دونوں صحیفوں کو اس قسم کی سرتاسر ظنی بلکہ وہمی ” تحقیقات “ کا تختہ مشق بنا رکھا ہے۔
اور اس ایک رکوع ہے4 سورة کے اندر کی ایک بڑی تقسیم کا نام رکوع ہے۔ بڑی سورتوں میں اکثر رکوع دس دس آیتوں پر رکھے گئے ہیں۔ اور یہ اتنی مقدار ہے جو ایک رکعت میں بہ آسانی پڑھی جاسکتی ہے۔ سورة فاتحہ کے علاوہ پارہ 30 کی 34 چھوٹی سورتوں میں بھی کل ایک ہی رکوع ہے۔ اس میں 7 آیاتیں ہیں5 ایۃ کے لفظی معنی نشان کے ہیں۔ اصطلاح میں سورت کے اندر کی سب سی چھوٹی تقسیم کا نام ہے۔ ہر فقرہ جس میں کوئی حکم ہو یا وہ ایک مستقل عبارت ہو، ایک آیت ہے۔ وقیل لکل جملۃ من القرآن دالۃ علی حکم ایۃ (راغب) وقد یقال لکل کلام منہ منفصل بفصل لفظی ایۃ (راغب) قرآن مجید کی کل آیتیں شمار کرلی گئی ہیں اور ان کی میزان بقول اصح 6 16، 6 ہے (اتقان) 25 لفظ6 قرآن مجید کے کل الفاظ بھی شمار کرلیے گئے ہیں۔ اور ان کی میزان بقول اصح 93424977 ہے (اتقان) 123 حروف7 کل حروف قرآنی بھی شمار کرلیے گئے ہیں اور ان کی میزان بقول اصح 760249232493 ہے (اتقان) اللہ اللہ کلام الہی کے عاشق وشیدائی کیسی کیسی دیدہ ریزیاں اس کے واسطے کرگئے ہیں !
8 قرآن مجید کا یہ افتتاحی فقرہ بجز ایک سورت ہے، ہر سورت کی ابتدا میں دہرایا گیا ہے، یعنی 1 13 اور سورة النمل کے اندر عبارت میں بہ طور آیت قرآنی بھی آیا ہے۔ اور اس لیے اس کے جزو قرآن ہونے نہ ہونے کی بابت تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ البتہ گفتگو اس میں ہوئی ہے کہ آیا ہر سورت کی ابتدا میں بھی اس کی حیثیت بطور ایک مستقل آیت کے ہے ؟ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے کہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ سورتوں کے درمیان محض بطور علامت فرق وتمیز کے اور شروع میں بطور افتتاحی فقرہ کے ہے۔ امام مالک (رح) بھی اسی مسلک سے متفق ہیں۔ قال مالک وابوحنیفہ لیست فی اوائل السورۃ بایۃ وانماھی استفتاح لیعلم بھا مبدء ھا (ابن العربی) مفصل بحث جصاص رازی (رح) حنفی کی احکام القرآن میں موجود ہے۔ ہر جائز کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے کی بڑی فضیلتیں حدیث میں وارد ہوئی ہیں۔ اور خود رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک یہی تھی کہ کھانا کھاتے، پانی پیتے، وضو کرتے، جانور ذبح کرتے، غرض اس قسم کے سارے کاموں کی ابتدا بسم اللہ ہی سے کرتے۔ اور ہے بھی یہی کہ جو شخص کسی کام کو خدائے رحمن ورحیم کا نام لے کر شروع کرتا ہے، وہ عملا اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ میرا ضمیر پاک ہے، میری نیت مخلصانہ ہے، میرا مقصد اعلی ہے اور میں توحید کا پرستار ہوں۔ ایک طرف شرک سے اور دوسری طرف الحاد سے بیزار۔ غرض بسم اللہ سے بڑھ کر قوت بخش اور اس سے زیادہ روح واخلاق کو بلند کرنے والا ذکر کوئی اور نہیں۔ بسم اللہ کی ب نحویوں کی اصطلاح میں باء الا ستعانت کہلاتی ہے، پڑھنے والا گویا یوں کہتا ہے کہ میں شروع کرتا ہوں اس کلام کو اللہ کے نام سے مدد چاہتے ہوئے، اور یہ کہہ کر بسم اللہ خواں اپنی اور سب کی طرف سے قطع نظر کرکے تکیہ کرلیتا ہے اللہ کی ذات اور اس کی صفات رحمانیت ورحمیت پر۔