Tafseer-e-Majidi - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر اللہ لوگوں پر برائی واضح کردیا کرتا، جس طرح وہ بھلائی کی جلدی مچاتے ہیں تو ان کی میعاد (کبھی کی) پوری ہوچکی ہوتی،21۔ لیکن ہم ان لوگوں کو جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑے رکھتے ہیں،22۔
21۔ (اور یہ کبھی کے ختم ہوچکے ہوتے) (آیت) ” لو یعجل اللہ للناس الشر استعجالھم بالخیر “۔ مشرکین مکہ نے کہا یہ نبی اگر سچے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر کیوں نہیں برسا دیتے۔ جواب ملتا ہے کہ اگر کہیں اللہ کا معاملہ ان کے ساتھ عذاب کے باب میں بھی اسی عجلت کا ہوتا جس کی توقع یہ باب رحمت میں رکھتے ہیں تو اب تک ان کا قلع قمع ہی ہوگیا ہوتا۔ قیل المعنی لوفعل اللہ مع الناس فی اجابتہ الی المکروہ مثل ما یرید ان فعلہ معھم فی اجابتہ الی الخیر لاھلکھم (قرطبی) (آیت) ” بالخیر “۔ یعنی جس طرح کی عجلت وہ ثواب و رحمت کے موقع پر چاہتے ہیں یا جس طرح خیر و رحمت کے موقع دعا پر حق تعالیٰ کا دستور ہے۔ اے کما یحبون استعجالھم بالخیر (معالم) اے کما یستجیب لھم اذا دعوا لانفسھم اولاموالھم اولاولادھم بالخیر (ابن کثیر) 22۔ (کہ فورا عذاب لے آنا حکمت تکوینی کے منافی ہے)
Top