Tafseer-e-Majidi - Yunus : 28
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ١ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُھُمْ : ہم اکٹھا کرینگے انہیں جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اَشْرَكُوْا : جنہوں نے شرک کیا مَكَانَكُمْ : اپنی جگہ اَنْتُمْ : تم وَشُرَكَآؤُكُمْ : اور تمہارے شریک فَزَيَّلْنَا : پھر ہم جدائی ڈال دیں گے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان وَقَالَ : اور کہیں گے شُرَكَآؤُھُمْ : ان کے شریک مَّا كُنْتُمْ : تم نہ تھے اِيَّانَا : ہماری تَعْبُدُوْنَ : تم بندگی کرتے
اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے،49۔ پھر ہم شرک کرنے والوں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شرکاء (خدائی) اپنی جگہ ٹھیرو،50۔ پھر ہم ان میں باہم خوب پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے (وہ مزعومہ) شرکاء (ان سے) کہیں گے تم ہماری عبادت تو کرتے نہ تھے،51۔
49۔ (میدان حشر میں) (آیت) ” نحشرھم جمیعا “۔ یعنی سارے خلائق کو۔ 50۔ (ذرا کی ذرا تاکہ تم پر تمہارے عقیدہ کی حقیقت روشن ہوجائے) (آیت) ” شرکآؤکم “۔ یعنی وہ جنہیں تم اپنے زعم میں شریک خدائی سمجھتے رہے ہو۔ (آیت) ” مکانکم “۔ یعنی اپنی جگہ ٹھیرجاؤ تقدیر کلام یوں سمجھی گئی ہے۔ امکثوا مکانکم، اے امکثوا مکانکم وقفوا فی موضعکم (ابن جریر) اے الزموا مکانکم (روح) 51۔ (تو آج ہم تمہارے شرک کے وبال میں کیوں پھنسیں) (آیت) ” زیلنا۔ زیلنا کے کھلے ہوئے معنی فرقنا کے ہیں۔ لیکن یہاں یہ صیغہ باب تفعیل سے لایا گیا ہے تاکہ معنی سے شدت تکثیر کا اظہار ہوسکے وقال فزیلنا ارادۃ تکثیرالفعل وتکریرہ ولم یقل فزلنا بینھم (ابن جریر) التضعیف للتکثیر لا للتعدیۃ (روح) اہل شرک کے لئے سب تکلیفوں اور عذابوں سے بڑھ کر اس منظر کا بھی سامنا کرنا ہوگا کہ خود انہی کے معبود الٹے ان سے تبری وبیزاری کررہے ہیں۔ ذلک یدل علی نھایۃ النکال والخزی فی حق ھؤلآء الکفار (کبیر)
Top