Tafseer-e-Majidi - Yunus : 36
وَ مَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا١ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
وَمَا يَتَّبِعُ : اور پیروی نہیں کرتے اَكْثَرُھُمْ : ان کے اکثر اِلَّا ظَنًّا : مگر گمان اِنَّ : بیشک الظَّنَّ : گمان لَا يُغْنِيْ : نہیں کام دیتا مِنَ : سے (کام) الْحَقِّ : حق شَيْئًا : کچھ بھی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
ان میں سے اکثر تو صرف (اپنے) گمان کی پیروی کررہے ہیں اور یقیناً گمان تو حق (کے اثبات) میں ذرا بھی مفید نہیں یقیناً اللہ خوب واقف ہے اس سے جو کچھ یہ کررہے ہیں،60۔
60۔ (اور وقت مناسب پر اپنے اسی علم کامل و محیط کے مطابق جزا و سزا بھی دے گا) (آیت) ” وما۔۔۔۔ ضنا “۔ یہاں یہ صاف بتادیا کہ مشرکین ومنکرین کے پاس نہ کوئی دلیل عقلی محکم ہے اور نہ کوئی استدلال نقلی مستحکم۔ یہ لوگ تو اندھیرے میں پڑے محض اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں۔ ہمارے زمانہ کے ایک فاضل یگانہ علامہ مناظر احسن گیلانی نے یہ بات بہت خوب کہی ہے کہ اثبات توحید کے دلائل قائم کرنے کے بجائے ہم کو تو مطالبہ اہل شرک سے کرنا چاہیے کہ وہ الٹی سیدھی کوئی دلیل تو تعدد آلہہ کے ثبوت میں لائیں، ! (آیت) ” ان۔۔۔۔ شیئا “۔ یہاں سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ انسانی ظن وتخمین، وہم و خیال جن کا شاندار اور موعوب کن نام ” حکمت وفلسفہ “ یا ” علوم عقلیہ “ رکھا گیا ہے، قرآن اور شریعت اسلامی میں مطلق ان کا کوئی درجہ نہیں۔ قرآن صرف حقائق کا قائل ہے، جو ہر روز بدلتے نہیں۔ ” علوم نظری “” اصول موضوعہ “ اور ” نظریات “ انہیں کو مبارک رہیں جن کی تحقیقات ہر صبح اور ہر شام بدلتی رہتی ہیں۔ یہیں سے یہ ہے کہ عقائد کے لئے دلائل ظنی کافی نہیں۔ وفی ھذہ الایۃ دلیل علی انہ لا یکتفی بالظن فی العقائد (قرطبی) فقہاء نے بھی آیت سے خوب خوب مسائل مستنبط کئے ہیں مثلا :۔ (1) یقین شک سے زائل نہیں ہوسکتا۔ (2) نص کے مقابلہ میں کوئی قیاس معتبر نہیں۔ (3) اطلاق وعموم قرآنی کی تحدید وتقیید اخبار آ حاد سے جائز نہیں۔ (4) وہ دلائل جو ثبوت میں یا دلالت میں ظنی ہوں، قطعی ویقینی کے معارض ومقابل نہ ہوسکیں گے۔ (5) ایمانیات اعتقادیات امر ثابت وحق سے متعلق ہیں۔ اس لئے ان میں دلائل ظنی کافی نہیں۔ (6) جب کوئی دلیل قطعی نہ موجود ہو تو دلائل ظنی پر عمل ممنوع نہیں۔ اس لئے کہ ظن کی عدم کفایت بہ مقابل حق مذکور ہے نہ کہ مطلقا۔ (7) مسائل فقہی میں اختلاف اجتہاد معتبر ہے اس لئے کہ اجتہاد ظن ہے اور یہاں ظن مقید اور مسائل اعتقادی میں تاویل واختلاف ممنوع۔ اس لئے کہ ان کا مدار یقین پر ہے۔ پس فرق ضالہ دائرۂ اہل حق سے خارج ہیں۔ (آیت) ” ان۔۔۔۔ شیئا “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس سے علماء رسوم بہت کم محفوظ ہیں۔ چناچہ اکثر متکلمین اہل ظاہر کے دلائل (ذات وصفات حق کے بارہ میں) باہم متعارض پائے جاتے ہیں جو ظنیات کی شان ہوتی ہے۔ پس جو کوئی اس سے بچنا چاہے۔ چاہیے کہ وہ سلف صالح کے اتباع میں لگا رہے اور فلسفیات میں مشغول نہ ہو۔ جس سے بجز شک بڑھنے کے اور کچھ حاصل نہیں۔
Top