Tafseer-e-Majidi - Yunus : 57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آگئی تمہارے پاس مَّوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَشِفَآءٌ : اور شفا لِّمَا : اس کے لیے جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اور اے لوگو بالیقین تمہارے پاس نصیحت تمہارے پروردگار کے پاس سے آگئی ہے اور شفاء بھی (ان بیماریوں کے لئے) جو سینہ میں ہوتی ہیں اور ایمان والوں کے حق میں ہدایت اور رحمت،88۔
88۔ یہاں قرآن مجید کے چار اوصاف بیان ہوئے۔ (آیت) ” موعظۃ۔ شفآء۔ ھدی۔ رحمۃ “۔ یہ سب تنوین کے ساتھ صیغہ نکرہ میں ہیں یہ تنکیر ان کی عظمت کے اظہار کے لئے ہے۔ والتنکیر ھنا للتفخیم (روح) ان چار اوصاف کی تشریح میں صاحب روح نے بعض محققین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نفس انسانی کے لئے حصول کمال میں چار مرتبہ یا منزلیں ہیں اور ان میں سے ہر لفظ ایک ایک مرتبہ یا منزل کی جانب اشارہ کررہا ہے۔ (1) پہلا مرتبہ، تہذیب ظاہر کا، یعنی معاصی سے اور اعمال بد سے بچنے کا ہے۔ موعظۃ اسی مقصد کے لئے ہوتا ہے۔ (2) دوسرا مرتبہ تہذیب باطن کا، یعنی اخلاق ذمیمہ و عقائد فاسدہ سے بچنے کا ہے۔ اس کو (آیت) ” شفآء لما فی الصدور “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (3) تیسرا مرتبہ عقائد حقہ واخلاق فاضلہ سے آراستہ ہونے کا ہے۔ یہ منزل ھدی کی ہے۔ (4) چوتھا مرتبہ انوار الہی سے جگمگا اٹھنے کا ہے اور یہ حاصل ہے مقام رحمۃ کا۔ (آیت) ” یایھا الناس “۔ خطاب کا عموم ملحوظ رہے۔ یا ایھا العرب ارشاد نہیں ہورہا ہے مخاطب ساری دنیا ہے، کوئی مخصوص قوم وملک نہیں۔ (آیت) ” موعظۃ “۔ یعنی ایسی کتاب جو برائیوں سے روکنے اور نیکیوں کی ترغیب کے لئے ایک مکمل نصیحت نامہ ہے، افراد واشخاص کے حق میں بھی اوراقوام وجماعات کے حق میں بھی۔ (آیت) ” شفآء لمافی الصدور “۔ یعنی ایسی کتاب کہ اگر اس کی ہدایتوں پر عمل ہو تو ہر قسم کے امراض قلب اور عوارض باطن کو، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی شفاء ہوجائے۔ (آیت) ” لل مومنین “۔ کی قید اس لئے کہ مومنین ہی تو اس کی ان صفات سے استفادہ کریں گے۔
Top