Tafseer-e-Majidi - Yunus : 58
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں بِفَضْلِ : فضل سے اللّٰهِ : اللہ وَبِرَحْمَتِهٖ : اور اس کی رحمت سے فَبِذٰلِكَ : سو اس پر فَلْيَفْرَحُوْا : وہ خوشی منائیں ھُوَ : وہ۔ یہ خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے، ہاں اس سے چاہیے کہ (لوگ) خوش ہوں وہ اس (دنیا) سے جس کو یہ جمع کررہے ہیں کہیں بہتر ہے،89۔
89۔ دنیا کا نفع اول تو قلیل اور پھر فانی، قرآن کا نفع ایک تو کثیر اور پھر باقی۔ (آیت) ” بفضل۔۔۔ فلیفرحوا “۔ ذلک سے اشارہ اسی فضل ورحمۃ ہی کی جانب ہے۔ اور مقصود اس ترکیب کلام میں تاکید وزور ہے۔ ورنہ یہی مفہوم سادہ صورت میں (آیت) ” فبذلک “۔ کے بغیر بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ فقرہ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ کسی چیز پر اگر خوش ہونا ہی ہے تو وہ یہی ہے نہ کہ کچھ اور۔ ترکیب کلام نے معنی حصر کے پیدا کردیئے۔ والاصل ان فرحوا بشیء فبذلک لیفرحوا لا بشیء اخر (روح) قولہ فبذالک فلیفرحوا بقید الحصر یعنی یجب ان لا یفرح الانسان الا بذلک (کبیر) (آیت) ” بفضل اللہ وبرحمتہ “۔ فضل اور رحمۃ دونوں سے اشارہ یہاں قرآن مجید ہی کی جانب ہے اور اسی کے لئے حکم ہورہا ہے کہ جب ایسی نعمت مل گئی تو اس پر خوش ہونا چاہیے۔ لفظ چونکہ دو ہیں۔ اس لئے یہ قول بھی اکابر ہی سے منقول ہے کہ ایک یعنی فضل سے مراد قرآن ہے اور دوسرے یعنی رحمۃ سے مراد اسلام ہے۔ قال ابوسعید الخدری ؓ وابن عباس ؓ فضل اللہ القران ورحمتہ الاسلام (قرطبی) (آیت) ” فلیفرحوا “۔ فرح کی متعدد قسمیں ہیں، فرح حقیقی وکامل وہی کہی جائے گی جو اعلی فرحت روحانی ہے۔ اور یہاں وہی مراد ہے۔ ثبت ان الفرح بالذات الجسمانیۃ فرح باطل واما الفرح الکامل فھو الفرح بالروحانیات والجواھر المقدسۃ وعالم الجلال ونور الکبریاء (کبیر)
Top