Tafseer-e-Majidi - Yunus : 70
مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِیْقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۠   ۧ
مَتَاعٌ : کچھ فائدہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں ثُمَّ : پھر اِلَيْنَا : ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کو لوٹنا ثُمَّ : پھر نُذِيْقُھُمُ : ہم چکھائیں گے انہیں الْعَذَابَ : عذاب الشَّدِيْدَ : شدید بِمَا : اس کے بدلے كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : وہ کفر کرتے تھے
دنیا (ہی) میں (بس) تھوڑا سا عیش ہے پھر ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے پھر ہم انہیں سزائے سخت کا مزہ چکھائیں گے اس کفر کے بدلہ میں جو یہ کرتے رہتے تھے،105۔
105۔ (آیت) ” متاع فی الدنیا “۔ کہہ کر قرآن مجید نے منکر ومکذب قوموں کی بالکل تصویر کھینچ دی ہے، تفصیل کے لئے مطالعہ ہو روس اور امریہ اور برطانیہ اور اور بڑی بڑی ” مہذب “ ” ترقی یافتہ “ اقبال مند قوموں کا حال ان کے آپس کے رشک وحسد کا حال، ان کی حرام کاریوں کا حال، ان کی شراب نوشیوں کا حال، ان کی سود خواریوں کا حال، ان کے جرائم کا حال، ان کے ہاں کے امراض خبیثہ کا حال، ان کے ہاں کی اسٹرائیکوں اور ہڑتالوں کا حال، ان کے ہاں کی کثرت طلاق اور کثرت فواحش کا حال، ان کے ہاں کی معاشی ابتری اور بیروزگاری کا حال، اور پھر فیصلہ کیجیے کہ متاع دنیا کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ رکھنے کے بعد بھی ان منکرین حق کو باوجود اپنی انتہائی ” ترقیوں “ کے فلاح کسی معنی میں بھی حاصل ہے ؟ اور آج جو کج فہم ” ہمدردان قوم “ قوم وملت کو انہی ” ترقی یافتہ قوموں “ کی روش پر چلانا چاہتے ہیں وہ ملت کو فلاح کی جنت کی طرف لئے جارہے ہیں یا دنیا ہی میں دوزخ کے عذاب کی طرف ؟ قرآن مجید تو ہر جگہ اور بار بار یہی بتا رہا ہے۔ اور ہمارے مشاہدہ سے اس کی تصدیق کرا رہا ہے کہ جو قومیں ایمان صحیح اور تقوی سے عاری ہیں وہ عیش ابدی سے تو خیر محروم ہی ہیں دنیا میں بھی ان کا تنعم محض ظاہری وسطحی ہوتا ہے، اندر سے بالکل کھوکھلا ! متاع ‘۔ میں تنوین تقلیل کی ہے۔ والتنوین للتحقیر والتقلیل (روح) یعنی متاع دنیوی تو خود ہی قلیل ہے پھر منکریں کے حصہ میں اور بھی قلیل تر۔
Top