Tafseer-e-Majidi - Yunus : 72
فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ١ؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ١ۙ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّيْتُمْ : تم منہ پھیر لو فَمَا سَاَلْتُكُمْ : تو میں نہیں مانگا تم سے مِّنْ اَجْرٍ : کوئی اجر اِنْ : تو صرف اَجْرِيَ : میرا اجر اِلَّا : مگر (صرف) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں رہو مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار
اور اگر تم اعراض ہی کئے جاؤ سو میں تم سے (کوئی) معاوضہ نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو بس اللہ ہی کے ذ مہ ہے اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں فرمان برداروں میں رہوں،108۔
108۔ پیغمبر قانون الہی کی پابندیوں سے مافوق وم اورا نہیں ہوتا، بلکہ ساری امت کی طرح وہ خود بھی اس کا پوری طرح پابند ہوتا ہے اس میں رد ہے جاہلی قوموں کا جو اپنے دیوی دیوتاؤں کو ہر اخلاقی قانون سے ماورا سمجھتے ہیں۔ (آیت) ” فان۔۔۔۔ اجر “۔ سو تم مجھے تبلیغ سے روکنے کا حق ہی کیا رکھتے ہو ؟ کیا میں تم سے اس کی کچھ فیس مانگتا رہتا ہوں جس کے رک جانے کا مجھے اب اندیشہ ہو، خوف خلق کی نفی اوپر کی آیت میں ہوچکی تھی، طمع خلق کی نفی اب ہوگئی۔ پیغمبر خلق کے خوف اور طمع دونوں سے یکسر بےنیاز رہتا ہے۔ (آیت) ” فما سالتکم من اجر “۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جو امر دین میں واجب ہے، اس پر اجرت جائز نہیں اور ظاہر ہے کہ تبلیغ رسالت حضرات انبیاء پر واجب ہی ہوتی ہے۔ (آیت) ” ان اجری الا علی اللہ “۔ میرا معاوضہ تو بس اللہ ہی کے ذمہ ہے اور اس نے اپنے کرم سے اس کا وعدہ کرلیا ہے۔ سو اب مجھے غم وفکر ہی کیا ؟
Top