Tafseer-e-Majidi - Yunus : 73
فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّیْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ جَعَلْنٰهُمْ خَلٰٓئِفَ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ
فَكَذَّبُوْهُ : تو انہوں نے اسے جھٹلایا فَنَجَّيْنٰهُ : سو ہم نے بچالیا اسے وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ فِي الْفُلْكِ : کشتی میں وَجَعَلْنٰھُمْ : اور ہم نے بنایا انہیں خَلٰٓئِفَ : جانشین وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے غرق کردیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو فَانْظُرْ : سو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُنْذَرِيْنَ : ڈرائے گئے لوگ
بہ ایں ہم وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کو جھٹلاتے رہے۔ پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور ہم نے انہیں آباد کیا،109۔ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں ہم نے غرق کردیا،110۔ سو دیکھ کہ جو ڈرائے جاچکے تھے ان کا کیا انجام ہوا،111۔
109۔ (روئے زمین پر) (آیت) ” فنجینہ۔۔۔ الفلک “۔ یعنی نوح (علیہ السلام) اور ہمراہیان نوح (علیہ السلام) کو عذاب طوفان وسیلاب سے نجات مل گئی۔ اس طوفان عظیم کے آثار قدیم ماہرین سائنس کو آج بھی ارض نوح (علیہ السلام) میں مل رہے ہیں، یہ طوفان ملک عراق میں دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیانی علاقہ میں آیا تھا۔ اس علاقہ کا رقبہ، موجودہ ماہرین اثریات کے تخمینہ کے مطابق 400 میل طول میں اور 100 میل عرض میں تھا۔ (آیت) ” الفلک “۔ کشتی نوح (علیہ السلام) کا طول حسب تصریح توریت 300 ہاتھ کا عرض 50 ہاتھ کا اور بلندی 30 ہاتھ کی تھی، گویا یہ کشتی اتنی ہی بڑی تھی جیسے آج کل کے برطانیہ اور امریکہ کے درمیان چلنے والے مسافروں کے جہاز یا (LINERS) عموما ہوتے ہیں۔ غرقابی قوم نوح (علیہ السلام) کے بعد آپ کے مخلص رفیق پھر اسی علاقہ میں آباد ہوئے اور انہی سے سلسلہ نسل آدم (علیہ السلام) چلا۔ نوع انسانی کی آبادی تاریخ کے اس ابتدائی دور میں صرف اسی سرزمین کے حدود تک محدود تھی۔ 110۔ یہ بیان کہ خداوند تعالیٰ نے غصہ ہو کر ساری نسل انسانی کو ہلاک کر ڈالنا چاہا، قرآن کا نہیں، بائبل ہی میں یہ تصریحات ملتی ہیں کہ :۔ ” خداوندزمین پر انسان کو پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا۔ اور خداوند نے کہا کہ میں انسان کو جسے میں نے پیدا کیا روئے زمین پر سے مٹا ڈالوں گا انسان کو اور حیوان کو بھی اور کیڑے مکوڑے اور آسمان کے پرندوں تک، کیونکہ میں ان کے بنانے سے پچھتاتا ہوں۔ “ (پیدایش 60: 5۔ 7) اسلام میں تو یہ عقیدہ ہی سرے سے کفر ہے کہ حق تعالیٰ بھی اپنے کسی عمل سے پچھتاتا ہے اور غرقابی کو تو قرآن مجید صراحت کے ساتھ مکذبین حق (آیت) ” (الذین کذبوا بایتنا) “ تک محدود رکھتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ روئے زمین پر کوئی آبادی ہی اس وقت تک بجز قوم نوح (علیہ السلام) کے نہ تھی، حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ کو ابھی کل دس ہی پشتیں تو ہوئی تھیں، خاندان انسانی اتنے عرصہ میں کہاں تک پھیل جاتا ؟ ایک ہی ملک کے اندر سمٹا سمٹایا ہوا تھا۔ غرقابی عام وعالمگیر رہی ہے یا اسی امت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص۔ یہ سوال متقدمین مفسرین کے سامنے بھی آچکا ہے اور محققین کی اکثریت شق ثانی ہی کی طرف گئی ہے اور ظواہر قرآن و حدیث بھی اسی کی تائید میں ہیں۔ ھل عم جمیع اھل الارض اوکان لبعضھم وھم اھل دعوتہ المکذبین بہ کما ھو ظاھر کثیر من الایات والاحادیث قال ابن عطیۃ الراجع عند المحققین ھو الثانی وکثیر من اھل الارض کا ھل الصین وغیرھم ینکرون عموم الغرق (روح) 111۔ یعنی وہ مکذبین منذرین عذاب الہی سے کس طرح مٹ کر اور ہلاک وبرباد ہو کر رہے ! (آیت) ” المنذرین “۔ کی یہ تصریح پھر اسی حقیقت کا اعادہ کررہی ہے کہ عذاب کی ہدف وہی سرکش ونافرمان قوم ہی تھی۔ (آیت) ” فانظر “ یعنی دیکھ اور سوچ سمجھ اے مخاطب ! دیکھنے سے مراد سیاق میں ظاہر ہے کہ ظاہر کی آنکھوں سے رؤیت کرنا نہیں، بلکہ دل کی آنکھوں سے سبق لینا اور عبرت حاصل کرلینا ہے۔ نظر کا لفظ عربی میں ظاہری بصارت اور باطنی بصیرت دونوں کے لئے عام ہے۔ النظر تقلیب البصر والبصیرۃ لادراک الشیء ورؤیتہ (راغب) قرآن مجید میں غور تامل تفحص و تدبر کے معنی میں اس کا استعمال بہ کثرت ہوا ہے اور اردو محاورہ میں بھی ” دیکھنا “ دونوں مفہوموں کے لئے آتا ہے۔
Top