Tafseer-e-Majidi - Yunus : 75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰى : موسیٰ وَھٰرُوْنَ : اور ہارون اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اس کے سردار بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ مُّجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
پھر ہم نے ان (پیغمبروں) کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس، سو انہوں نے تکبر کیا، اور وہ لوگ تھے ہی جرم کرتے رہنے والے،114۔
114۔ یعنی شرک و مخلوق پرستی اور حق دشمنی ونفس پرستی میں مبتلا۔ (آیت) ” بایتنا “۔ ” نشانیوں کا لفظ دلائل ومعجزات دونوں کے لئے عام ہے۔ (آیت) ” الی فرعون وملاۂ “۔ بائبل میں اس کی تصریح کہیں پر نہیں کہ ان دونوں پیغمبران برحق نے اپنے پیام توحید کی تبلیغ میں مصریوں کو بھی مخاطب کیا تھا حالانکہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ جو اللہ کی توحید کا منادی ہو وہ اصلاح عقائد کی کوشش سب سے پہلے ہی مرتبہ پر نہ کرے۔ اور کفر، شرک اور ضلالتوں کو اسی حال پر چھوڑے رکھے۔ یہیں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کا جو حصہ نسبۃ محفوظ ہے اس میں بھی کیسے کیسے تغیرات وتصرفات ہوچکے ہیں۔ اور قرآن کس طرح ضروری ضروری موقعوں پر اس کی فروگزاشتوں کی اصلاح کرتا جاتا ہے۔ (آیت) ” فاستکبروا “۔ یعنی ان کی بڑائی انہیں اس سے مانع ہوئی کہ وہ پیغمبروں کی تصدیق کرتے۔ فرعون لقب تھا مصر کے قبطی شہنشاہ کا، موسیٰ وہارون اسی نسل بنی اسرائیل سے تھے جو ہر طرح اس کی محکوم اور رعایا تھی، اپنے محکوموں اور ” غلاموں “ کی زبان سے اتنے بڑے روحانی منصب کا دعوی سننا حاکم قوم کی رعونت گوارا کیسے کرسکتی تھی۔
Top