Tafseer-e-Majidi - Yunus : 78
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا وَ تَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَجِئْتَنَا : کیا تو آیا ہمارے پاس لِتَلْفِتَنَا : کہ پھیر دے ہمیں عَمَّا : اس سے جو وَجَدْنَا : پایا ہم نے عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا وَتَكُوْنَ : اور ہوجائے لَكُمَا : تم دونوں کے لیے الْكِبْرِيَآءُ : بڑائی فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم لَكُمَا : تم دونوں کے لیے بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والوں میں سے
پاتے، وہ بولے کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہمیں ہٹا دے اس (طریقہ) سے جس پر ہم نے اپنے باپ (دادا) کو پایا تھا اور ملک میں بڑائی تم دونوں کے لئے ہوجائے تو ہم تو تم دونوں کو (کبھی) ماننے والے نہیں،117۔
117۔ مصری مذہب کے ” ہزار دیوتا “ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ہندی مشرکوں کی طرح مصریوں میں حیوان پرستی بھی جاری تھی، بندر، کتا، بلی وغیرہ ان کے مقدس جانور تھے۔ اپنے بادشاہ کو خدا کا اوتار مانتے تھے۔ تناسخ ارواح کے قائل تھے۔ وقس علی ہذا۔۔ تبلیغ موسوی سے ان سارے عقائد پر ضرب کاری لگ رہی تھی، موسیٰ (علیہ السلام) محض قومی لیڈر نہ تھے جو اپنی قوم اسرائیل کو ” سوراج “ دلانے کے لئے مصری گورنمنٹ سے نامہ وپیام کررہے تھے وہ سب سے پہلے توحید وعقیدۂ آخرت کے مناد تھے، اور پھر کچھ اور۔ (آیت) ” تکون لکما الکبریآء فی الارض “۔ دنیا پرست مادی زاویہ نظر رکھنے والا اپنے نفس پر قیام کرکے دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتا ہے۔ (آیت) ” لکما بمومنین “۔ ایمان یہاں شرعی اصطلاحی معنی میں نہیں، مراد صرف بات کا ماننا یا تسلیم کرنا ہے۔ صلہ بھی اسی لئے ب کے بجائے ل کے ساتھ آیا ہے۔
Top