Tafseer-e-Majidi - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ : سو نہ اٰمَنَ : ایمان لایا لِمُوْسٰٓى : موسیٰ پر اِلَّا : مگر ذُرِّيَّةٌ : چند لڑکے مِّنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم عَلٰي خَوْفٍ : خوف کی وجہ سے مِّنْ : سے (کے) فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهِمْ : اور ان کے سردار اَنْ : کہ يَّفْتِنَھُمْ : وہ آفت میں ڈالے انہیں وَاِنَّ : اور بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون لَعَالٍ : سرکش فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی ہر بات کسی (اور) نے نہ مانی بجز ان کی قوم کے تھوڑے سے لوگوں کے، فرعون اور اپنے سرداروں کے خوف سے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت میں نہ ڈال دے اور واقعی فرعون ملک میں زور رکھتا تھا اور واقعی وہ زیادتی کرنے والوں میں سے تھا،122۔
122۔ (اس لئے لوگوں کا اتنا ڈر بےجا تھا بھی نہیں) (آیت) ” فما امن لموسی “۔ امن “۔ امن کا صلہ یہاں بجائے ب کے ل (مکسور) کے ساتھ آرہا ہے۔ معنی یہ ہے کہ آپ (علیہ السلام) کی بات کی تصدیق نہ کی۔ (آیت) ” ذریۃ “۔ یہاں قلت عدد کے اظہار کے لئے ہے۔ جیسے اردو میں کہتے ہیں کہ بس مٹھی بھر لوگ۔ ھھنا معناھا تقلیل العدد (کبیر) ابن عباس ؓ کا قول منقول ہوا ہے کہ یہ لفظ جب کسی قوم پر بولا جاتا ہے تو مقصود اس کی تحقیر یا تصغیر ہوتی ہے۔ قال ابن عباس لفظ الذریۃ یعبر بہ عن القوم علی وجہ التحقیر والتصغیر (کبیر) اور چونکہ یہاں تحقیر کا کوئی قرینہ ہے نہیں، اس لئے مقصود تصغیر عددی ہی ہے۔ (آیت) ” من قومہ “۔ کی ضمیر نے دو بالکل مختلف معنی پیدا کردیئے ہیں۔ مراد قوم موسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوسکتی ہے اور قوم فرعون بھی، پہلی صورت میں مراد یہ لی جائے گی کہ فرعون اور فرعونیوں کے ڈر سے شروع شروع اسرائیلوں کو بھی بہت ہی تھوڑی تعداد نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کی، اور دوسری شق کو مان کر اشارہ ان چندفرعونی ساحروں کی طرف سمجھا جائے جو بعد مقابلہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئے تھے۔ اس عاصی کا ذوق پہلی شق کو ترجیح دیتا ہے۔ سلف سے منقول دونوں قول ہیں۔ الھاء عائدۃ علی موسیٰ (قرطبی) اے طائفۃ من ذراری بنی اسرائیل (کشاف) والضمیر لموسی کما ھو احدی الروایتین عن ابن عباس ؓ (روح) (آیت) ” علی خوف “۔ خوف کی تنوین شدت خوف کے لئے ہے۔ التنوین للتعظیم اے کائنین مع خوف عظیم (روح)
Top