Tafseer-e-Majidi - Yunus : 90
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُهٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًا١ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ١ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
وَجٰوَزْنَا : اور ہم نے پار کردیا بِبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کو الْبَحْرَ : دریا فَاَتْبَعَھُمْ : پس پیچھا کیا ان کا فِرْعَوْنُ : فرعون وَجُنُوْدُهٗ : اور اس کا لشکر بَغْيًا : سرکشی وَّعَدْوًا : اور زیادتی حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَآ اَدْرَكَهُ : جب اسے آپکڑا الْغَرَقُ : غرقابی قَالَ : وہ کہنے لگا اٰمَنْتُ : میں ایمان لایا اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا : سوائے الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ : وہ جس پر ایمان لائے بِهٖ : اس پر بَنُوْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل وَاَنَا : اور میں مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار کردیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم و زیادتی (کے ارادہ) سے ان کا پیچھا کیا،131۔ یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو بولا،132۔ میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں بجز اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں،133۔ اور میں مسلموں میں (داخل ہوتا) ہوں،134۔
131۔ (کہ انہیں پکڑیں، سزا دیں، قتل کریں) بنی اسرائیل کے اس سفر بحری اور فرعون کی غرقابی پر مفصل حاشیے سورة بقرہ الم میں گزر چکے۔ (آیت) ” بغیاوعدوا “۔ یعنی جو سرتا سر ناحق پر تھا، کیا از روئے قول اور کیا از روئے عمل بغی کا تعلق قول سے ہے، اور عدو کا عمل سے، قال المفسرون بغیا طلبا للاستعلاء بغیر حق فی القول وعدوا فی الفعل (قرطبی) قیل بغیا فی القول وعدوا فی الفعل (معالم) 132۔ (بدحواس وسراسیمہ ہو کر اور ملائکہ عذاب کو معاینہ کرنے کے بعد جیسا کہ ہر کافر ومنکر کو موت کے وقت فرشتگان عذاب کا معاینہ ہوتا رہتا ہے) (آیت) ” حتی اذا ادر کہ الغرق “۔ اس میں بیان اس امر کا آگیا کہ عمل غرقابی شروع ہوچکا تھا اور ڈوبنے والے کو اب عالم برزخ کا مشاہدہ ہورہا تھا۔ فامن حیث لاینفعہ الایمان (ابن کثیر) تراکمت الامواج فوق فرعون وغشیتہ سکرات الموت فقال وھو کذالک (ابن کثیر) 133۔ (اور توحید کا اقرار کرتا ہوں، اور رسالت موسوی کی تصدیق کرتا ہوں) (آیت) ” امنت بہ بنوا سرآء یل “۔ ” بنی اسرائیل کے خدا “ کی تصریح اس لئے کہ وہی تو ایک قوم توحید کی قائل تھی، دوسرا نکتہ یہ بھی کہ وہی قوم جو آج تک نظر میں اس قدر حقیر و ذلیل تھی، آج تصدیق اسی کے برسر حق ہونے کی کرنا پڑرہی ہے ! محض یہ کہنے میں کہ ” میں خدائے واحد پر ایمان لایا “۔ یہ بات کہاں تھی، خدائے واحد کی تصدیق میں بڑی رکاوٹ اب تک فرعون اور اس کے ہم قوموں کو یہی تھی، کہ ہم اعلی برتر اور حاکم قوم کے افراد ایسے خدا کا اقرار کیونکر کرلیں جو ہمارے محکوموں اور ہماری رعایا کا خدا ہے۔ 134 ۔ (تو اب مجھے نجات ملے اس غرق سے بھی اور عذاب آخرت سے بھی)
Top