Tafseer-e-Majidi - Yunus : 92
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۠   ۧ
فَالْيَوْمَ : سو آج نُنَجِّيْكَ : ہم تجھے بچا دیں گے بِبَدَنِكَ : تیرے بدن سے لِتَكُوْنَ : تاکہ تو رہے لِمَنْ : ان کے لیے جو خَلْفَكَ : تیرے بعد آئیں اٰيَةً : ایک نشانی وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری نشانیاں لَغٰفِلُوْنَ : غافل ہیں
سو آج ہم تیرے جسم کو نجات دے دیں گے تاکہ تو ایک نشان (عبرت) پیچھے آنے والوں کے لئے رہے،136۔ اور بےشبہ بہت سے لوگ ہماری (ایسی) نشانیوں سے غافل ہیں،137۔
136۔ (اور تیرے لئے مزید رسوائی وتفضیح کا سامان بنا رہے) فرعون کا ایمان جس طرح عالم یاس میں تمامتر ظاہری وصوری تھا، معنی و حقیقت سے خالی، اسی طرح اور اسی مناسبت سے اس کے جسم مردہ کی نجات بھی اس کے حق میں تمامتر بےسود رہی۔ (آیت) ” ایۃ “۔ یہاں عبرۃ کے مرادف ہے۔ اے عبرۃ وعظۃ (معالم) عبرۃ (جلالین) عبرۃ ونکالا من الطغیان (روح) ایک غرق شدہ فرعون مصر کی نعش ماہرین اثریات کو مدت ہوئی قدیم مصری شہر تھیبس (THEBES) میں مل گئی تھی اور آج قاہرہ کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے اور مؤرخین وماہرین کا خیال ہے کہ یہ فرعون رعمیس ثانی تھا۔ رعمیس ثانی یا تو وہی قرآنی فرعون ہے۔ اور یا فرعون مغروق، اگر کوئی اور ہوا ہے تو ماہرین فن کو اس نعش کی شناخت میں دھوکا ہوا ہے یہ نعش اسی کی ہے نہ کہ رعمیس ثانی کی ، 137۔ (اور خود اپنی غفلتوں اور طغیانیوں میں مبتلاان چیزوں سے ذرا بھی اثر نہ قبول کرنے والے، اے لایتعظون بھا ولا یعتبرون بھا (ابن کثیر)
Top