Tafseer-e-Majidi - Yunus : 93
وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا : اور البتہ ہم نے ٹھکانہ دیا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل مُبَوَّاَ : ٹھکانہ صِدْقٍ : اچھا وَّرَزَقْنٰھُمْ : اور ہم نے رزق دیا انہیں مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں فَمَا اخْتَلَفُوْا : سو انہوں نے اختلاف نہ کیا حَتّٰى : یہاں تک کہ جَآءَھُمُ : آگیا ان کے پاس الْعِلْمُ : علم اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب يَقْضِيْ : فیصلہ کرے گا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور ہم نے انہیں نفیس چیزوں کا رزق عطا کیا،138۔ سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم (حق) آگیا،139۔ یقیناً آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان ان امور میں جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے فیصلہ کردے گا،140۔
138۔ (اسی ملک اور وطن میں) مراد فلسطین وشام کے سرسبز و شاداب علاقے ہیں اور ذکر اب بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے بعد کا ہورہا ہے۔ (آیت) ” مبوا صدق “۔ کے لفظی معنی منزل حسن اور مکان خوب ودلپسند کے ہیں۔ محاورۂ عرب میں صدق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر اچھی چیز کو اسی صفت سے ظاہر کرتے ہیں۔ اے کانا محمودا (کبیر) منزلا صالحا مرضیا (کبیر) لان عادۃ العرب انھا اذا مدحت شیئا اضافتہ الی الصدق تقول رجل صدق وقدم صدق (کبیر) وفی العباب کل مانسب الی الصلاح والخیر اضیف الی الصدق (تاج) مراد شام وارض فلسطین سے قدیم مفسرین نے بھی لی ہے۔ ھو الاردن والشام (بحر۔ عن ابن عباس ؓ المراد بہ الشام وبیت القدس (بحر، عن قتادہ وابن زید والضحاک) (آیت) ” ورزقنھم من الطیبت “۔ ملک شام اور اس کے ملحق علاقے اپنی سرسبزی، شادابی، خوش پیداواری کے لئے شروع سے آج تک مشہور چلے رہے ہیں، تو ریت موجودہ میں ہے :۔ ” میں نازل ہوا ہوں کہ انہیں مصریوں سے چھڑاؤں اور اس زمین سے نکال کے اچھی وسیع زمین جہاں دودھ اور شہد موج مارتا ہے۔ کنعانیوں۔۔ کی جگہ میں لاؤں۔ (خروج 30: 8) آج بھی جغرافیہ کی جن کتابوں اور جن سیاحت ناموں میں چاہیے یہی تفصیلات پڑھ لیجیے۔ 139۔ (پہلے انہی کے پیغمبروں کے ذریعہ سے اور پھر آخر میں نبی آخر الزمان ﷺ کے ذریعہ سے) (آیت) ” فما اختلفوا “۔ یعنی راہ حق سے انحراف نہیں کیا، مطلب یہ ہوا کہ ان نعمتوں کا مقتضاء تو یہ تھا کہ بنی اسرائیل ہمیشہ سپاس گزاررہ کر توحید و رسالت کے عقائد پر مضبوطی سے قائم رہتے۔ اس کے برعکس انہوں نے دین حق سے اختلاف و انحراف شروع کردیا۔ اور وہ بھی پیامات نبوت سننے کے بعد۔ 140۔ اور وہ فیصلہ عملی، مشاہد ومرئی ہوگا۔ علمی، عقلی تحقیقی فیصلہ تو اب بھی ہوچکا ہے۔
Top