Tafseer-e-Majidi - Yunus : 94
فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَۙ
فَاِنْ : پس اگر كُنْتَ : تو ہے فِيْ شَكٍّ : میں شک میں مِّمَّآ : اس سے جو اَنْزَلْنَآ : ہم نے اتارا اِلَيْكَ : تیری طرف فَسْئَلِ : تو پوچھ لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَقْرَءُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتٰبَ : کتاب مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے لَقَدْ جَآءَكَ : تحقیق آگیا تیرے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : پس نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
پھر اگر (بالفرض) آپ کو شک ہو ان (مضامین) کے باب میں جو ہم نے آپ پر نازل کئے ہیں،141۔ تو آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھئے جو آپ سے پہلے کی کتابوں کو پڑھتے رہتے ہیں،142۔ بالیقین آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے سچی (کتاب) آچکی ہے سو آپ ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہوں،143۔
141۔ (اسرائیلیوں، فرعونیوں وغیرہ کی حکایات اور تاریخ سے متعلق) ذکر ابھی بالکل متصل اسرائیلی تاریخ کے بعض اجزاء اور فرعونیوں کی سرگزشت کا آیا ہے۔ اس لئے مماانزلنا الیک کا تعلق بھی انہی قصص و حکایات ہی سے متعلق معلوم ہوتا ہے اور مفسرین قدیم بھی یہی سمجھے ہیں۔ اے من القصص (بیضاوی) اے من القصص المنزلۃ الیک التی من جمل تھا قصۃ فرعون وقومہ واخبار بنی اسرائیل (روح) لیکن اگر یہ محدود معنی نہیں بلکہ وہ وسیع معنی مراد لئے جائیں جو ظاہر الفاظ سے نکلتے معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی کل مضامین کتاب میں شک جب کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ قرآن نے تو یہ بات محض بہ طور فرض واحتمال کے کہی ہے اور قرآن نے اس سے بڑھ بڑھ کر احتمالات، یعنی محال محض چیزوں کے امکانات، اسی ترکیب کلام کے ساتھ پیش کئے ہیں، مثلا خدائے قدوس کا صاحب اولاد ہونا، ان کان للرحمن ولد، ان کنت فی شک۔ لازمی نہیں کہ یہ خطاب رسول اللہ ﷺ ہی کے ساتھ سمجھا جائے، مخاطب اگر محض انسان سمجھا جائے تو اس کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے۔ اور بعض اہل علم نے تقدیر کلام یوں ہی فرض کی ہے۔ اے ان کنت ایھا الانسان فی شک مما انزلنا الیک من الھدی علی لسان رسولنا محمد (معالم) یہ تقدیر کلام بھی بڑے بڑے ائمہ ادب ولغت سے منقول ہے کہ اے محمد ﷺ آپ کافر سے کہیے کہ اگر تجھے شک ہو تو الخ۔ قال ابو عمر محمد بن عبدالواحد الزاھد سمعت الامامین ثعلبا والمبرد یقولان اے قل یا محمد للکافر فان کنت فی شک الخ (قرطبی) 142۔ (ان کی اصلی، غیر محرف صورتوں میں) مراد یہ ہے کہ قدیم آسمانی کتابوں کی اصلی عبارتیں، انسانی تصرف وتحریف سے الگ کرکے اگر دیکھی جائیں تو وہ بیانات قرآنی کی تمام ترتصدیق وتائید ہی کریں گی ، 143۔ (اس کے کسی مضمون سے متعلق بھی) نزول قرآن کے زمانہ میں علم وتحقیق کی اجارہ داری گویا یہود ہی کی تھی اور نمبر دوم پر عیسائی تھے، یہ دونوں رسول اللہ ﷺ امی کی تکذیب وتضحیک پر بات بات پر تیار وآمادہ رہتے تھے۔ اوپر قرآن انہی اہل علم کے مذہب اور تاریخ سے متعلق پوست کندہ حالات اسی رسول ﷺ امی کی زبان سے دھڑلے سے ادا کرا رہا تھا۔ بشر کوئی سا بھی ہو، یہاں تک کہ سید البشر بھی، اس کا ایسے موقعوں پر رکنا، جھجکنا، بالکل ایک امر طبعی تھا خلق سے بالکل بےجھجک، بےدھڑک ہو کر حقائق کو بےتکان ادا کرنا یہ تو صرف حق تعالیٰ ہی کا خاصہ ہوسکتا تھا۔ اور اسی سے ملتی ہوئی وہ توجیہ ہے جو فخر المفسرین رازی (رح) نے اسی آیت کی تفسیر میں الوجہ الثالث کے ماتحت کی ہے۔
Top