Tafseer-e-Majidi - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا : پس کیوں نہ كَانَتْ : ہوتی قَرْيَةٌ : کوئی بستی اٰمَنَتْ : کہ وہ ایمان لاتی فَنَفَعَهَآ : تو نفع دیتا اس کو اِيْمَانُهَآ : اس کا ایمان اِلَّا : مگر قَوْمَ يُوْنُسَ : قوم یونس لَمَّآ : جب اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے كَشَفْنَا : ہم نے اٹھا لیا عَنْھُمْ : ان سے عَذَابَ : عذاب الْخِزْيِ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَمَتَّعْنٰھُمْ : اور نفع پہنچایا انہیں اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
چناچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ اس کا ایمان لانا اسے نفع پہچاتا بجز قوم یونس (علیہ السلام) کے،146۔ جب وہ (لوگ) ایمان لے آئے ہم نے ان پر سے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں دور کردیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کیلئے خوشی عیشی دی،147۔
146۔ (کہ صرف وہی وقت کے وقت ایمان لے آئی اور عذاب دنیوی سے نجات پاگئی) (آیت) ” فلولا کانت قریۃ امنت “۔ ذکر ان بستیوں کا ہورہا ہے جو تکذیب انبیاء کی بنا پر ہلاک وبرباد ہوئیں۔ (آیت) ” فنفعھا ایمانھا “۔ یعنی وقوع عذاب سے قبل وہ ایمان لے آتی اور تائب ہوجاتی۔ (آیت) ” قوم یونس “۔ یونس سے مراد پیغمبر برحق یونس (علیہ السلام) بن متی ہیں۔ توریت میں ان کا نام (JONAN) یایوناکر کرکے آیا ہے ان کا زمانہ آٹھویں صدی ق، م، کے وسط کا ہے۔ ان کا معاصر اسرائیلی بادشاہ یربعام تھا۔ جس کا زمانہ 781 ؁ ق، م ہے۔ باشندہ شہر نینوا کے تھے۔ جو اپنے زمانہ میں اسیر یا کی پر قوت سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ اور آج ملک عراق میں جہاں موصل ہے اس کے مقابل دریائے دجلہ کے بائیں کنارہ پر واقع ہے۔ اس وقت شہر کا رقبہ 1800 ایکڑ تھا۔ اس کی قدامت اس سے ظاہر ہے کہ اس کا ذکر حمورابی کے نوشتوں میں ملتا ہے۔ 2285 ؁ ق، م میں۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ 147۔ یعنی موت کے وقت تک دنیا میں بہ اطمینان وبہ فراغت رہنے دیا۔ (آیت) ” لما امنوا “۔ یعنی وہ ایمان لے آئے ایسے وقت کہ ابھی نزول عذاب نہیں ہوا تھا۔ صرف نزول عذاب کی علامتیں دور سے نظر آتی تھیں۔ قال الزجاج انھم لم یقع بھم العذاب وانما رأوالعلامۃ التی تدل علی العذاب ولو رأو اعین العذاب لما نفعھم الایمان وقلت قول الزجاج حسن (قرطبی) اے عندما رأو امارات العذاب ولم یوفروا الی حلولہ (روح) (آیت) ” کشفنا۔۔۔۔ الدنیا “۔ یہ نجات کی صراحت صرف عذاب دنیوی سے متعلق ہے۔ باقی ایمان کے بعد نجات اخروی کا مفہوم خود بخود متوقع ہوجاتا ہے۔ (آیت) ” لمآ امنوا کشفنا “۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ مرید پر کوئی ایسا فیضان ہو جس کی خبر شیخ کو نہ ہو گو وہ فیضان شیخ ہی کی برکت سے ہو۔ جیسا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو اپنی امت کے ایمان کی اطلاع نہ ہوئی، حالانکہ خود وہ ایمان حضرت یونس نبی (علیہ السلام) ہی کی برکات سے تھا۔
Top