Tafseer-e-Majidi - Al-Humaza : 3
یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗۚ
يَحْسَبُ : وہ گمان کرتا ہے اَنَّ : کہ مَالَهٗٓ : اس کا مال اَخْلَدَهٗ : اسے ہمیشہ رکھے گا
وہ یہ خیال کررہا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا،1۔
1۔ یعنی اس کے عمل سے تو ایسا ظاہر ہورہا ہے کہ گویا وہ اپنے مال، دولت، خزانہ کے خلود کا معتقد ہے، جبھی تو اسکے ساتھ اس درجہ اشتعال وانہماک رکھتا ہے۔ انسان دولت کثیر کے ساتھ ہی کیسے کیسے دور دراز کے منصوبے باندھنے اور کیسی کیسی لمبی اسکیمیں بنانے لگتا ہے اور زبان سے کہے یا نہ کہے لیکن بہرحال دل سے تو یہی سمجھنے لگتا ہے کہ اب حلال مشکلات میرے ہاتھ آگیا ہر افتاد کا توڑ اپنی اسی دولت کے زور سے کرلیاکروں گا قرآن مجید نے اپنے جامع وبلیغ لفظوں میں اس ساری بشری ذہینت کیطرف اشارہ کردیا۔ (آیت) ” ویل ..... المزہ “۔ اس میں اجتماعی زندگی کے دو (2) بڑے امراض، پس پشت عیب رکھنے۔ اور رو در رو طعنہ دینے کا علاج آگیا۔ (آیت) ” الذی ...... عددۃ “۔ اس میں اشارہ اس طرف آگیا کہ اجتماعی اخلاقی امراض کی بنیاد زیادہ ترکبر وبخل پر ہوتی ہے اور یہ عموما افرط وحب مال سے پیدا ہوتے ہیں۔ (آیت) ” جمع مالا “۔ غایت حرص وشدت بخل سے مال کے جمع رکھنے کی دھن میں لگا رہتا ہے۔ مال سے طبعی تعلق مذموم نہیں، مذموم اس تعلق میں غلو وانہماک ہے۔ (آیت) ” وعددہ “۔ بار بار کنتے اور حساب کرتے رہنا علامت و دلیل ہے غایب حب مال اور اس میں شغف وانہماک کی، بینک کی پاس بک کی باربار الٹ پلٹ کرتے رہنا، بیجک اور کھاتے اور سیا ہے کے پھیر میں دن رات پڑے رہنا سٹہ اور صرافہ اور (Share Market) کی خبروں کی ٹوہ میں ہر وقت لگے رہنا، یہ سب گننے ہی کے حکم میں داخل ہے مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ جمع مال مذموم وہ ہے جو شغف اور محبت کے ساتھ ہو، اور اسی کے آثار میں سے یہ بار بار کا گننا بھی ہے۔
Top