Tafseer-e-Majidi - Hud : 110
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب فَاخْتُلِفَ : سو اختلاف کیا گیا فِيْهِ : اس میں وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : ایک بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : البتہ فیصلہ کردیا جاتا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان وَاِنَّهُمْ : اور بیشک وہ لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مُرِيْبٍ : دھوکہ میں ڈالنے والا
اور بالقین ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی سو اس میں (بھی) اختلاف کیا گیا،153۔ اور اگر ایک بات پہلے ہی سے آپ کے پروردگار کی طرف سے نہ ٹھیرچ کی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوگیا ہوتا اور یہ لوگ اس کی طرف شک کرکے تردد میں پڑے ہوئے ہیں،154۔
153۔ یعنی کچھ نے اسے مانا اور کچھ اس میں بھی طرح طرح کے شبہات اعتراضات بھی نکالتے رہے، حالانکہ کتاب توریت تو اسرائیلیوں کی اپنی ” قومی “ کتاب بھی تھی تو پھر قرآن کے باب میں تو جو کچھ بھی تردد و انکار ہو کوئی نئی بات نہ ہوگئی۔ 154۔ یعنی اس فیصلہ ہی کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور فیصلہ سے مراد عذاب موعود ہے۔ (آیت) ” کلمۃ سبقت من ربک “۔ اور وہ ٹھہرائی ہوئی بات یہی کہ پورا عذاب آخرت ہی میں ہوگا۔ (آیت) ” لقضی بینھم “۔ یعنی اسی دنیا میں فیصلہ ہوگیا ہوتا، اور فیصلہ سے مراد عملی مشاہد فیصلہ ہے۔ (آیت) ” بینہم “ سے مراد اختلاف کرنے والوں کے در میان ہے۔
Top