Tafseer-e-Majidi - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
تو آپ مستقیم رہیے جیسا کہ آپ کو حکم ہوا ہے اور وہ لوگ بھی) جو تائب ہو کر آپ کے ہمراہ ہیں،156۔ اور تم لوگ سرکشی نہ کرو بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اسکو وہ خوب دیکھ رہا ہے،157۔
156۔ یعنی آپ راہ دین پر پوری طرح قائم رہیے اور کفار ومنکرین کے انجام کی فکر میں نہ پڑئیے اور یہی حکم آپ کے متبع مومنین کے حق میں بھی ہے۔۔ آپ کا درجہ استقامت آپ ﷺ کے مرتبہ کے لائق اور آپ کے ہمراہی مومنین کا ان کے مرتبہ کے لائق، محققین نے لکھا ہے کہ اعلی استقامت یہی ہے کہ حقوق حق اور حقوق خلق دونوں پوری طرح ادا ہوتے رہیں۔ ای فی القیام بحقوق الحق والخلق (روح) (آیت) ” ومن تاب معک “۔ اس عطف سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ پیغمبر (علیہ السلام) کی استقامت اور مومنین کی استقامت ایک درجہ یا ایک مرتبہ کی چیز ہے اشتراک صرف نفس عمل میں ظاہر ہوتا ہے نہ کہ مراتب عمل میں، والعطف لایقتضی اکثر من المشارکۃ فی مطلق الفعل (روح) (آیت) ” تاب “۔ تو بہ کس چیز سے مراد ہے ؟ کفر وضلالت سے توبہ۔ 157۔ اس کا علم بھی کامل، محیط اور اس کو قدرت جزا بھی ہر طرح پر حاصل ہے۔ (آیت) ” ولا تطغوا “۔ طغیان سے مراد ہے عقائد و عبادات یا اخلاق ومعاملات کسی بات میں بھی افراط یا تفریط اختیار کرنا اور یہ استقامت کی ضد ہے جس کا حکم ابھی مل چکا ہے۔
Top