Tafseer-e-Majidi - Hud : 31
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١ۖۚ اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لَكُمْ : تمہیں عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ اللّٰهِ : اللہ کے خزانے وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ وَّ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہیں تَزْدَرِيْٓ : حقیر سمجھتی ہیں اَعْيُنُكُمْ : تمہاری آنکھیں لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ : ہرگز نہ دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ خَيْرًا : کوئی بھلائی اَللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو کچھ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں اِنِّىْٓ : بیشک میں اِذًا : اس وقت لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : البتہ ظالموں سے
اور میں تم سے یہ تو کہتا نہیں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میں ان لوگوں کے لئے کہہ سکتا ہوں جو تمہاری نگاہوں میں حقیر ہیں کہ انہیں اللہ بھلائی دے ہی گا نہیں،43۔ اللہ ہی خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے،44۔ ورنہ میں ہی ظالم ٹھیروں گا،45۔
43۔ یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے مخاطبین کے ایک ایک شبہ کا ازالہ فرما رہے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ میں نہ اللہ کی خزانوں کا خزانچی ہوں کہ دنیوی نعمتوں میں سے جو جس کو چاہوں اسے دلادوں اور نہ کاہنوں کی طرف غیب دانی کا دعوی رکھتا ہوں، اور نہ دیوتا کی قسم سے ہوں اور نہ (ان) عوام ہی کی قسمت کا ذمہ لئے ہوں پیغمبر کی اس تقریر میں وقت کی ایک ایک گمراہی کا رد موجود ہے۔ (آیت) ” لااقول لکم عندی خزآئن اللہ “۔ جاہلی قومیں بس یہی چاہتی ہیں کہ جس کا دامن پکڑیں اس کے وسیلہ سے دنیوی فلاح و ترقی بھی ہر قسم کی حاصل ہوجائے۔ (آیت) ” ولآ اعلم الغیب “۔ جاہلی قوموں نے بزرگی کا ایک لازمہ غیب دانی کو بھی سمجھا ہے۔ (آیت) ” انی ملک “۔ ملک کا ترجمہ جاہلی قوموں کے سیاق میں ” دیوتا “ یا ” مافوق البشر “۔ سے ہونا چاہیے۔ (آیت) ” لااقول۔۔۔ خیرا “۔ جاہلی قوموں میں خواص کو بڑی فکر اس کی لگی رہتی ہے کہ عوام بھی کہیں ان کے برابر نہ آجائیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ صاحب ارشاد کا صاحب تصرف ہونا یا صاحب کشف ہونا، یاضروریات بشری میں عام انسانوں سے ممتاز ہونا ہرگز ضروری نہیں، صرف صاحب علم وعمل ہونا ضروری ہے۔ 44۔ (میں ان کی قسمت کی بھلائی سے انکار کرنے والا کون، اگر یہ مخلص وصادق ہیں تو خیر دارین ان کا حصہ ہے اور ان کے صدق واخلاص کا جاننے والا اللہ ہے ، ) 45۔ یعنی اگر میں نے خواہ مخواہ تمہاری رائے کی موافقت میں اپنے ان پیرو وں کو منافق ٹھہرا دیا۔
Top