Tafseer-e-Majidi - Hud : 35
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۠   ۧ
اَمْ : کیا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : بنا لایا ہے اس کو قُلْ : کہ دیں اِنِ افْتَرَيْتُهٗ : اگر میں نے اسے بنا لیا ہے فَعَلَيَّ : تو مجھ پر اِجْرَامِيْ : میرا گناہ وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : بری مِّمَّا : اس سے جو تُجْرِمُوْنَ : تم گناہ کرتے ہو
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے (یعنی قرآن کو) گڑھ لیا ہے، آپ کہہ دیجیے اگر میں نے اسے گڑھ لیا ہے تو میرے ہی اوپر میرا یہ جرم رہے گا اور تم جو جرم کررہے ہو میں اس سے بری رہوں گا،49۔
49۔ یہ آخری اور انقطاعی جواب ہے کہ خیرتم کسی طرح نہیں سمجھتے تو نہ سمجھو اپنا جرم میں خود بھگت لوں گا تو خود اپنی خبر لو، منکرین کے اعتراض کا اصل جواب آیت نمبر 13 کے ذیل میں آچکا ہے کہ اگر میں قرآن تصنیف کرسکتا ہوں تو خیر تم سب مل ملا کر پورا قرآن نہ سہی اس کی دس ہی سورتیں تیار کرکے دکھادو۔ اوپر سے حکایت حضرت نوح (علیہ السلام) کی چل رہی تھی آگے بھی وہی ملے گی درمیان میں مناسبت مقام سے یہ آیت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے معاند معاصرین سے متعلق آگئی، عن مقاتل انھا فی شان النبی ﷺ مع مشرکی مکۃ (روح) ھذا کلام معترض فی وسط ھذہ القصۃ مؤکد لھا مقرر لھا بقولہ تعالیٰ لمحمد ﷺ ام یقول ھؤلاء الکفافرون الجاحدون افتری ھذا وافتعلہ من عندہ (ابن کثیر) لیکن دوسرے اقوال میں اسے حکایت نوح (علیہ السلام) ہی سے متعلق قرار دیا ہے۔ (آیت) ” مماتجرمون “۔ یعنی یہ کہ افترائے وحی کا الزام مجھ پر رکھ رہے ہو۔ اے من اجرامکم فی اسناد الافتراء الی (کشاف۔ بیضاوی) (آیت) ” علی اجرامی “۔ یعنی میرے گناہ کا وبال میرے ہی اوپر رہے گا۔ تقدیر کلام فعلی عقاب اجرامی سمجھی گئی ہے اے ان کنت افتریتہ فعلی عقاب جرمی وان کنت صادقا وکذبتمونی فعلیکم عقاب ذلک التکذیب (کبیر)
Top