Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 161
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۠   ۧ
اَمْ : کیا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : بنا لایا ہے اس کو قُلْ : کہ دیں اِنِ افْتَرَيْتُهٗ : اگر میں نے اسے بنا لیا ہے فَعَلَيَّ : تو مجھ پر اِجْرَامِيْ : میرا گناہ وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : بری مِّمَّا : اس سے جو تُجْرِمُوْنَ : تم گناہ کرتے ہو
اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت کریں۔ اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز (خدا کے روبرو) لاحاضر کرنی ہوگی۔ پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا اور بےانصافی نہیں کی جائے گی
و ما کان لنبی ان یغل مال غنیمت میں خیانت کرنا نبی ﷺ سے بعید ہے۔ غلول مال غنیمت میں خیانت کرنا۔ محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے اس آیت کا نزول وحی کے متعلق ہوا مطلب یہ ہے کہ کسی لالچ یا خوف یا سہل انگاری کی وجہ سے وحی کا کچھ حصہ ظاہر نہ کرنا نبی ﷺ کے لیے جائز نہیں۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ کچھ طاقتور لوگوں نے اصرار کے ساتھ رسول اللہ سے مال غنیمت کی طلب کی اس پرا اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مطلب یہ کہ مال غنیمت میں خیانت کرنا کہ کسی گروہ کو دے اور کسی کو نہ دے نبی کے لیے جائز نہیں بلکہ مساوات کے ساتھ سب کو تقسیم کرنا اس پر لازم ہے۔ ابو داؤد، ترمذی نے حضرت ابن عباس کا قول بیان کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن بھی کہا ہے کہ اس آیت میں اس سرخ دھاری والی کمبلی کا بیان ہے جو بدر کے دن گم ہوگئی تھی اور بعض لوگوں نے خیال کیا تھا کہ شاید رسول اللہ نے لے لی ہو اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مال غنیمت میں خیانت نبی ﷺ کے لیے درست نہیں۔ کلبی اور مقاتل کا بیان ہے کہ آیت کا نزول جنگ احد کی غنیمت کے متعلق ہوا جب تیر اندازوں نے احد کی گھاٹی کے مرکز کو چھوڑ دیا اور کہنے لگے ہم کو اندیشہ ہے کہیں رسول اللہ یہ نہ فرما دیں کہ جس نے جو چیز لی وہ اسی کی ہے اور بدر کی لڑائی کی طرح آج بھی غنیمت کی تقسیم نہ کریں پس اس خیال سے انہوں نے اپنی مقررہ جگہ چھوڑ دی اور اموال غنیمت پر جا پڑے رسول اللہ نے فرمایا : کیا میں نے تم کو حکم نہیں دیدیا تھا کہ جب تک میرا حکم تم کو نہ پہنچے اپنی جگہ نہ چھوڑنا کہنے لگے ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کو وہیں کھڑآ چھوڑ آئے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : نہیں بات یہ ہے کہ تم نے یہ خیال کیا کہ ہم مال غنیمت میں خیانت کرلیں گے۔ بانٹ کر تم کو نہیں دیں گے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن جریر نے ضحاک کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے کچھ جاسوس دشمن کے حال کی دیکھ بھال کے لیے بھیجے تھے ان کی غیر حاضری میں رسول اللہ نے ساتھیوں کو مال غنیمت بانٹ دیا اور جاسوسوں کو کوئی حصہ نہیں دیا اس پر اس آیت کا نزول ہوا پس بعض مستحقین کے محروم رہ جانے کو غلول فرمایا۔ اگرچہ یہ خیانت نہ تھی لیکن سختی اور مبالغہ کی وجہ سے اس کو خیانت قرار دیا۔ آیت کی دوسری قراءت میں اَنْ یُغَلَّ فعل مجہول آیا ہے یعنی نبی ﷺ کو خائن قرار دینا جائز نہیں یا یہ مطلب کہ نبی سے امت کا خیانت کرنا جائز نہیں۔ قتادہ نے فرمایا : ہم سے بیان کیا گیا تھا کہ کچھ صحابہ نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی ان کے بارے میں اس آیت کا نزول ہوا۔ طبرانی نے کبیر میں باوثوق سند سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے کچھ لشکر کہیں بھیجا مگر اس کا جھنڈا (ناکام) واپس آیا پھر بھیجا تو پھر واپس آگیا اور وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ہرن کے سر کے برابر سو نیکی خیانت کرلی تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ و من یغلل یات بماغل یوم القیامۃ اور جو خیانت کرے گا قیامت کے دن چرائے ہوئے مال کے ساتھ آئے گا (ملزم مال کے ساتھ پکڑا ہوا آئے گا۔ ) کلبی نے کہا دوزخ کے اندر اس چرائی ہوئی چیز کی ہم شکل کوئی شئ بنا دی جائے گی اور اس خائن سے کہا جائے گا جا اتر کر اس کو لے لے وہ اتر کر اس چیز کو پشت پر اٹھا کرلے آئے گا جب اپنی جگہ آجائے گا تو وہ چیز چھوٹ کر پھر اندرگر پڑے گی اور اس شخص کو حکم دیا جائے گا کہ اتر کر جائے اور اس چیز کو لاد کرلے آئے وہ ایسا کرے گا اور یہی معاملہ اس کے ساتھ (خدا جانے) کب تک ہوتا رہے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ خیبر کے سال ہم رسول اللہ کے ہمرکاب نکلے وہاں سونا چاندی کچھ لوٹ میں ہاتھ نہیں آیا صرف اونٹ، کپڑے اور سامان ملا۔ یہاں سے حضور نے وادی قریٰ کا رخ کیا۔ ایک حبشی غلام جس کا نام مدعم تھا۔ رفاعہ بن زید نے رسول اللہ کو ہبہ کیا تھا ( وہ بھی ساتھ تھا) جب وادی قریٰ میں پہنچ گئے اور مدعم کے اونٹ کا کجاوہ اتارنے لگا تو اچانک ایک نامعلوم تیر اس کے آلگا۔ معلوم نہیں کس نے مارا اس تیر سے وہ مرگیا لوگوں نے کہا اس کو جنت مبارک ہو رسول اللہ نے فرمایا : ہرگز نہیں قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چھوٹی کمبلی جو اس نے خیبر کی جنگ میں مال غنیمت سے لے لی تھی اور اس کے حصہ میں نہیں آئی تھی وہ اس کے اوپر آگ بن کر بھڑک رہی ہے یہ بات سن کر ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر آیا اور خدمت گرامی میں پیش کردیئے۔ فرمایا : ایک یا دو تسمے بھی آگ کے ہیں (یعنی اگر داخل نہ کئے جاتے تو مرنے کے بعد یہ آگ کے ہوجاتے) (رواہ البغوی) صحیحین کی روایت میں بحوالہ حضرت ابوہریرہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کسی شخص نے رسول اللہ کے پاس ایک غلام جس کا نام مدعم تھا بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ حضرت یزید بن خالد جہنی کی روایت ہے کہ خیبر کے دن ایک شخص کا انتقال ہوگیا لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ سے کیا آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے ساتھی کی نما زپڑھو یہ سن کر لوگوں کے رنگ فق ہوگئے۔ رسول اللہ نے فرمایا : تمہارے ساتھی نے راہ خدا میں خیانت کی ہے ہم نے اس کا سامان کھول کر دیکھا تو اس میں یہودیوں سے لوٹے ہوئے کچھ نقلی موتی (پوتھ) ملے جو دو درہم کی قیمت کے ہوں گے۔ (رواہ مالک و النساء) حضرت ابو حمید ساعدی راوی ہیں کہ قبیلۂ ازد کا یک شخص تھا جس کا نام ابن الکتیبہ تھا اسے رسول اللہ نے وصول صدقہ کا آفیسر بنا کر بھیجا جب وہ مال زکوٰۃ وصول کرکے واپس آیا تو (کچھ مال پیش کرکے) کہنے لگا۔ یہ تمہارا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں دیا گیا ہے۔ رسول اللہ نے اس کے بعد کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور حمد وثناء کے بعد فرمایا : اما بعد اللہ نے جن امور کا مجھے مہتمم بنایا ہے میں ان میں سے بعض کاموں کا ناظم تمہارے بعض اشخاص کو بنا دیتا ہوں پس وہ آکر کہتے ہیں کہ یہ (مال تو اے مسلمانو) تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں دیا گیا ہے آخر وہ اپنی اماں اور اپنے ابا کے گھر کیوں نہیں بیٹھ رہتا کہ اگر وہ سچا ہے تو اس کا ہدیہ (گھر بیٹھے) اس کے پاس آجاتا خدا کی قسم جو شخص بھی تم میں سے کوئی چیز ناحق لے گا وہ ضرور جب اللہ کے سامنے جائے گا تو وہ چیز اپنے اوپر لا دے ہوگا پس میں کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ اللہ کی پیشی کے وقت بلبلاتے اونٹ کو یا دھاڑتی گائے کو یا منمناتی بکری کو اپنے اوپر لادے ہوئے لائے۔ (متفق علیہ) دوسری روایت میں آیا ہے کہ پھر حضور نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا : اے اللہ کیا میں نے (تیرا حکم) پہنچا دیا۔ اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا۔ حضرت عدی بن عمیرہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا کہ ہم نے جس کسی کو تم میں سے کسی کام پر مقرر کیا اور اس نے ہم سے ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپالی تو یہ چوری ہوگی جس کو ساتھ لے کر قیامت کے دن اس کو آنا ہوگا۔ (رواہ مسلم) حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ (خطاب کرنے) کھڑے ہوئے اور (مال زکوٰۃ یا مال غنیمت کی) خیانت کا بڑا جرم بتایا اور فرمایا : خوب سن لو قیامت کے دن تم میں سے کسی کی ایسی حالت میں مجھ سے ملاقات نہ ہو کہ اس کی گردن پر بلبلاتا اونٹ سوار ہو اور وہ کہہ رہا ہو یا رسول اللہ ﷺ دہائی ہے اور میں کہوں اللہ کے مقابلہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں تو تجھے حکم پہنچا چکا تھا پھر حضور ﷺ نے اس شخص کا ذکر کیا جس کی گردن پر گھوڑا اور بکری اور سونا چاندی لدا ہوگا اور اس سے آگے وہی فریاد کرنے اور مدد نہ کرنے کا تذکرہ فرمایا۔ (بخاری و مسلم) ابو یعلی اور بزار نے حضرت عمر کی روایت سے اور امام احمد نے حضرت سعد بن عبادہ اور بلب کی روایت سے اور بزار نے حضرت ابن عمر و حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے اور طبرانی نے حضرت ابن عباس و حضرت ابن مسعود اور حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے اس طرح کی حدیثیں نقل کی ہیں اور یہ تمام احادیث مال زکوٰۃ وصول کرنے والوں کے متعلق ہیں جو مال زکوٰۃ میں خیانت کرتے ہوں۔ حضرت ابو مالک اشعری کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے بڑی خیانتی چوری گز بھر زمین کی ہے کسی زمین یا مکان میں اگر دو شخص ہم جوار (شریک) ہوں اور ایک دوسرے کے حق کی ایک گز زمین کاٹ لے تو قیامت کے دن اللہ اس کو سات زمینوں کا طوق پہنائے گا۔ حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا : مجھے رسول اللہ نے (عامل بنا کر) یمن کو بھیجا اور فرمایا میری اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ لے لینا کیونکہ وہ خیانتی چوری ہوگی : و مَنْ یَّغْلُلْ یاتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ جو شخص خیانتی چوری کرے گا وہ قیامت کے دن اس خیانتی مال کے ساتھ آئیگا۔ عمرو بن شعیب کے دادا راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نے خیانتی چور کا سامان جلوا دیا اور اس کو مارا۔ (رواہ ابو داؤد) حضرت عبد اللہ بن عمرو نے فرمایا : کہ رسول اللہ کے سامان پر ایک شخص مقرر تھا جس کو کر کرہ کہا جاتا تھا کر کرہ مرگیا تو رسول اللہ نے فرمایا : وہ دوزخ میں ہے لوگ اس کا سامان دیکھنے گئے تو اس میں ایک عبا ملا جس کی اس نے خیانت کی تھی۔ (رواہ البخاری) حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : خیبر کے دن صحابہ کی ایک جماعت آئی اور کہنے لگی فلاں شہید ہوا فلاں شہید ہوا یہاں تک کہ ایک آدمی (کے جنازہ) کی طرف سے گذرے اور بولے فلاں شہید ہوا۔ رسول اللہ نے فرمایا : ہرگز نہیں میں نے اس کو آگ میں دیکھا ہے کہ ایک چادر کی خیانت کرنے کی وجہ سے یہ فرمایا : ایک عبا کی خیانت کی وجہ سے۔ پھر فرمایا : اے خطاب کے بیٹے جا اور تین بار لوگوں میں منادی کردے کہ جنت میں صرف مؤمن جائیں گے حسب الحکم میں نے باہر نکل کر تین بار لوگوں میں منادی کردی کہ جنت میں صرف مؤمن جائیں گے۔ (رواہ مسلم) ثم توفی کل نفس ما کسبت پھر پورا پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا ہوگا یعنی کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ و ھم لا یظلمون اور ان کی حق تلفی نہیں کی جائے گی یعنی نہ اطاعت گذار کے ثواب میں کمی کی جائے گی نہ نافرمان کے عذاب میں زیادتی۔
Top