Tafseer-e-Majidi - Hud : 40
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَ : جب آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم وَفَارَ : اور جوش مارا التَّنُّوْرُ : تنور قُلْنَا : ہم نے کہا احْمِلْ : چڑھا لے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلٍّ زَوْجَيْنِ : ہر ایک جوڑا اثْنَيْنِ : دو (نرو مادہ) وَاَهْلَكَ : اور اپنے گھر والے اِلَّا : سوائے مَنْ : جو سَبَقَ : ہوچکا عَلَيْهِ : اس پر الْقَوْلُ : حکم وَمَنْ : اور جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَمَآ : اور نہ اٰمَنَ : ایمان لائے مَعَهٗٓ : اس پر اِلَّا قَلِيْلٌ : مگر تھوڑے
(اس طرح کے مکالمات جاری رہے) یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور زمین میں سے پانی ابلنا شروع ہوا۔58۔ ہم نے کہا کہ اس (کشتی) میں ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو دو کو چڑھا لو،59۔ اور اپنے گھروالوں کو بھی بجز ان کے جن پر حکم نافذ ہوچکا ہے اور (ہاں دوسرے) ایمان والوں کو بھی اور ایمان ان کے ساتھ بہت ہی کم لوگ لائے تھے،60۔
58۔ (جو علامت تھی آغاز عذاب موعود کی) (آیت) ” اذاجآء امرنا “۔ یعنی جب غرقابی کے ذریعہ ان پر عذاب دنیوی کے نزول کا حکم آپہنچا۔ (آیت) ” وفارالتنور “۔ فقرہ کے صحیح معنی صرف اس قدر ہیں کہ زمین سے پانی نے جوش مارنا شروع کیا، تنور کے معنی صرف سطح زمین یا بلند زمین کے ہیں یا چشمہ پھوٹنے کی جگہ کے ہیں۔ ابن عباس ؓ صحابی اور متعدد تابعین سے یہی معنی مروی ہیں۔ التنوروجہ الارض (ابن جریر عن ابن عباس) وجہ الارض (ابن جریر عن الضحاک وعکرمۃ) التنور وجہ الارض والعرب تسمیہ تنورا قالہ ابن عباس وعکرمۃ والزھری وابن عیینۃ (بحر) ۔۔۔ وجہ الارض وکل مفجر ماء ومحفل ماء الوادی (قاموس) التنور اشرف الارض وارفعھا (ابن جریر عن قتادۃ) اہل لغت نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لفظ اصلاعربی نہیں بلکہ فارسی سے معرب ہو کر آیا ہے۔ فارسی معرب (لسان) لفظی ست مشترک میان فارسی وعربی وتر کی (برہان قاطع) تاج العروس میں ہے کہ دیباج، دینار، سندس، استبرق وغیرہ کی طرح اس باہر سے آئے ہوئے لفظ کو بھی عرب اپنا چکے ہیں۔ تنور کے اگر وہی معنی لیے جائیں جو اردو میں متعارف ومتداول ہیں تو التنور سے مراد یا تو کوئی مخصوص و متعین تنور ہوگا اور یا جنس تنور۔ یحتمل ان تکون ال فیہ للعھد لتنور مخصوص ویحتمل ان تکون للجنس (بحر) قیل لیس المرادبہ تنورا معینا بل الجنس والمراد فار الماء من التنانیر (روح) بہرحال معنی جو بھی لیے جائیں پانی کا یہ جوش مارنا بہ طور طوفان عظیم کی علامت کے ہوگا۔ 59۔ (ای نوح) اس کل سے مراد یقیناً آبی اور ہوائی اور زمینی جانوروں کے سارے انواع و اقسام نہیں ہوسکتے بلکہ مراد صرف خشکی ہی کے جانور ہیں اور ان میں بھی صرف وہ جو عادۃ انسان کے کام آتے رہتے ہیں۔ اے من کل نوع من الحیوانات ینتفع بہ الذین ینجون من الغرق (روح) لفظ (آیت) ” کل “۔ کے اس محدود معنی میں استعمال کی مثالیں قرآن مجید ہی میں بہ کثرت مل جاتی ہیں۔ یہ صراحت کہ اس چھوٹے سے جہاز میں پاک وناپاک پرندے اور چارپائے اور حشرات الارض ہر قسم کے جانور آگئے تھے صرف بائبل میں ملتی ہے۔ وہاں وعدۂ الہی بھی یہی ملتا ہے کہ سب وہ جاندار موجودات کو جنہیں میں نے بنایا زمین پر سے مٹاڈالوں گا۔ “ (پیدائش 7: 4) اور عمل بھی اسی وعید کے مطابق ہواچنانچہ ” سب جاندار جو زمین چلتے تھے چرندے اور پرندے اور جنگلی جانور، اور کیڑے مکوڑے جو زمین پر رینگتے تھے اور سب انسان مرگئے۔ سب جن کے نتھنوں میں زندگی کا دم تھا ان میں سے جو خشکی پر رہتے تھے مرگئے بلکہ سب موجودات جو روئے زمین پر جان رکھتی تھیں مٹ گئیں، انسان سے لے کے حیوان تک اور کیڑے مکوڑوں اور آسمان کے پرندوں تک وہ سب زمین سے مٹ گئیں۔ “ (پیدائش 7: 21۔ 23) (آیت) ” زوجین اثنین “۔ یعنی ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ۔ 60۔ چناچہ وہی بہت قلیل المقدار مومنین جہاز پر سوار کیے گئے۔ (آیت) ” الا من سبق علیہ القول “۔ یعنی بجز ان کے جن پر ان کے کفر کے کفر کے پاداش میں غرق ہونے کا حکم صادر ہوچکا۔ باوجود نوح (علیہ السلام) کے رشتہ دار ہونے کے توریت میں اس مقام پر ہے :۔ ” اور تو کشتی میں جائے گا، تو اور تیرے بیٹے اور تیری جورو اور تیرے بیٹوں کی جو رواں تیرے ساتھ اور سب جانوروں میں سے ہر ایک جنس کے دو دو اپنے ساتھ کشتی میں لے کہ وہ بچ جائیں، چاہیے کہ وہ نر و مادہ ہوں “۔ (پیدائش 6: 8۔ 9)
Top