Tafseer-e-Majidi - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور بالیقین ہمارے فرستادے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے،101۔ (اور) بولے (آپ پر) سلام ہو (ابراہیم (علیہ السلام) نے) کہا (تم پر) سلام پھر دیر نہیں لگائی کہ ایک تلاہوا بچھڑا لے آئے،102۔
101۔ (آپ (علیہ السلام) کے صاحبزادے اسحاق کے تولد کی) (آیت) ” رسلنا “۔ یعنی فرشتے بشر کی شکل میں۔ توریت میں یہ تفصیل مزید درج ہے کہ یہ آنے والے تعداد میں تین تھے :۔ ” اور وہ دن کو گرمی کے وقت اپنے خیمہ کے دروازہ پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنی آنکھیں اٹھا کر نظر کیا اور کیا دیکھا کہ تین مرد اس کے پاس کھڑے ہیں “۔ (پیدائش 18: 1۔ 2) 102۔ جگمگاتے ہوئے ہوٹلوں کے دور سے بہت ہی پہلے اور سراؤں کے دور سے بھی بہت پہلے مسافروں، راہگیروں، نوواردوں کی خاطر ومدارات اور مہمان نوازی اس وقت کا عام دستور اور دلیل شرافت تھا اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک تو شیخ القبیلہ اور پھر ذاتی حیثیت سے شریف ترین انسان ! آپ کی مہمان نوازیاں تاریخ کا ایک مسلم واقعہ ہیں۔ اللہ کے فرشتے بشری قالب میں تھے آپ انہیں معمولی مسافر سمجھ کر فورا ان کی خاطر داری میں لگ گئے، توریت میں اس ضیافت ومہمانی کی مزید تفصیلات درج ہیں :۔ ” اور ابراہام خیمہ میں سرہ کے پاس دوڑا گیا اور کہا کہ تین پیمانہ آٹا لے کے جلد گوندھ کے پھلکے پکا اور ابراہام گلے کی طرف دوڑا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لا کر ایک جوان کو دیا اور اس نے جلد اسے تیار کیا۔ پھر اس نے گھی اور دودھ اور اس بچھڑے کو جو اس نے پکوایا تھا لے کے ان کے سامنے رکھا اور آپ ان کے پاس درخت کے نیچے کھڑا رہا اور انہوں نے کھایا۔”(پیدائش 18: 7۔ 8) اس حکایت قرآنی سے یہ بھی نکل آیا کہ پیغمبر برحق کے لیے (معاذ اللہ) عالم الغیب ہونا تو الگ رہا صاحب کشف ہونا بھی ضروری نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیغمبر بلکہ بہت سے پیغمبروں کے سردار ہوئے ہیں لیکن اتنا بھی آپ (علیہ السلام) شناخت نہ کرسکے کہ یہ نوارد انسان ہیں یا فرشتے۔ (آیت) ” قالوا سلما “۔ قال سلم “۔ فقہاء مفسرین نے اس سے یہ نکالا ہے کہ سلام فرشتوں کا طریقہ ہے اور اہل اسلام میں بھی ہر دور میں رائج وشائع رہا ہے۔ فیہ الدلالۃ علی ان السلام قد کان تحیۃ اھل الاسلام وانہ تحیۃ الملئکۃ (جصاص)
Top