Tafseer-e-Majidi - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : سے (کوئی) دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي : میں (پر) الْاَرْضِ : زمین اِلَّا : مگر عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ رِزْقُهَا : اس کا رزق وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مُسْتَقَرَّهَا : اس کا ٹھکانا وَمُسْتَوْدَعَهَا : اور اس کے سونپے جانے کی جگہ كُلٌّ : سب کچھ فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : روشن کتاب
اور کوئی جاندار زمین پر ایسا نہیں کہ اللہ کے ذمہ اس کا رزق نہ ہو،7۔ اور وہ ہر ایک کے زیادہ رہنے کی جگہ اور کم رہنے کی جگہ کو جانتا ہے ہر چیز کتاب میں درج ہے،8۔
7۔ یعنی ادنی سے ادنی، حقیر سے حقیر کیڑے کے لئے بھی سامان رزق کی فراہمی کے اسباب وہی پیدا کرتا رہتا ہے اس کی ربوبیت اور صفت علم کا احاطہ کون کرسکتا ہے۔ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اسباب رزق کی طرف سے غافل وبے فکر ہوجائے بلکہ مراد یہ ہے کہ تکیہ اسباب پر نہ کرے، سبب کا مبدأ مرجع ومنتہا اللہ کو ہی سمجھے رہے۔ (آیت) ” دآبۃ “۔ کے معنی مطلق جانور کے ہیں اور اس کا اطلاق ہر قسم کے حیوان پر ہوتا ہے۔ قال الزجاج الدابۃ اسم لکل حیوان واطلق علی کل حیوان ذی روح (کبیر) یہاں بھی اپنے اسی وسیع مفہوم میں ہے اور اس پر اکابر تفسیر کا اتفاق ہے۔ والمراد بھذا اللفظ فی ھذہ الایۃ الموضوع الاصلی اللغوی فیدخل فیہ جمیع الحیوانات وھذا متفق علیہ بین المفسرین (کبیر) (آیت) ” علی اللہ “۔ یعنی اللہ نے اپنے فضل وکرم سے اسے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے، اے واجب علی اللہ بحسب الوعد والفضل والاحسان (کبیر) ورنہ حقیقۃ تو کوئی شے بھی حق تعالیٰ کو پابند نہیں بنا سکتی۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اسباب کو اگر اس اعتقاد کے ساتھ اختیار کیا جائے کہ (آیت) ” مسبب “۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ اعتقاد نہ رکھا جائے کہ بدون اسباب کے رزق حاصل ہی نہیں ہوتا تو یہ توکل کے منافی نہیں حاصل یہ کہ وثوق اور ربط قلب بس حق تعالیٰ ہی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ 8۔ (اور اسی صحیفہ علم الہی کا دوسرا نام لوح محفوظ ہے) (آیت) ” مستقر “۔ اور مستودع “۔ کی تفسرین متعدد نقل ہوئی ہیں لیکن ان میں سے ماثور کوئی بھی نہیں اور نہ ماہرین لغت ہی کا کسی ایک مفہوم پر اتفاق ہے۔ ترجیح اسی مفہوم کو ہے جو ترجمہ میں ظاہر کردیا گیا۔
Top