Tafseer-e-Majidi - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
پھر جب (ابراہیم علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (کھانے) کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو ان سے متوحش ہوئے اور ان سے دل میں خوفزدہ ہوئے،103۔ وہ بولے کہ ڈرئیے نہیں ہم تو قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف بھیجے گئے ہیں،104۔
103۔ (کہ یہ کوئی مفسد دشمن یا کوئی ڈاکو تو نہیں ہیں) وقت کا دستور یہ تھا کہ جو دشمن یا کوئی ڈاکو کسی کو اپنا ہدف بنانا چاہتے تھے اس کے ہاں کھانے سے پرہیز کرتے تھے اور جس کے ہاں کھالیتے پھر اس کو نہ ستاتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قدرۃ ایسے موقع پر یہی خیال گزرا اور ان سے خوف وہراس بھی طبعی طور پر پیدا ہوا۔ خوف وہراس امور طبعی ہیں (جس طرح بھوک اور پیاس) اور مرتبہ ولایت کیا معنی مرتبہ رسالت کے بھی ذرہ بھر منافی نہیں۔ (آیت) ” ایدیھم لاتصل الیہ “۔ توریت موجودہ میں یہ فقرہ کہ ” انہوں نے کھایا “ قطعا ایک ایجاد بندہ ہے اور قرآن مجید کو اسی بیان کی تردید کے لیے یہ صراحت کرنی پڑی۔ 104۔ (ایک خاص مقصد کے لیے اور ہم انسان نہیں فرشتے ہیں) مفسر تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آپ کا ان کو فرشتہ یقین کرلینا صرف ان کے دعوی پر نہ تھا بلکہ قوت مدرکہ قدسیہ کے ذریعہ سے متوجہ ہو کر یقین کیا جس سے اولا توجہ نہ فرمائی تھی جیسا بعض اوقات محسوسات میں بھی یہ قصہ پیش آتا ہے۔
Top