Tafseer-e-Majidi - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے فرستادے لوط (علیہ السلام) کے پاس سے پہنچے تو لوط (علیہ السلام) ان کی وجہ سے کڑھے اور ان کی وجہ سے بہت تنگدل ہوئے اور بولے یہ آج کا دن بہت بھاری ہے،113۔
113۔ (دیکھا چاہیے جو عزت وآبرو سے گزر جائے) (آیت) ” لما جآءت رسلنا “۔ یعنی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے کمسن اور خوبرو لڑکوں کی شکل میں لوط (علیہ السلام) کے شہر سدوم میں (جوملک شام میں بحرمردہ کے عین ساحل پر واقع تھا) پہنچے۔ لوط حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے اور خود بھی پیغمبر تھے آپ پر حاشیہ سورة اعراف میں گزر چکا۔ قوم لوط (علیہ السلام) کی غیر طبعی اور خلاف وضع فطرت شہوانیت آج ضرب المثل کے درجہ تک پہنچ گئی ہے اور کسی مزید صراحت کی ضرورت نہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو قدرۃ اپنے مہمانوں سے متعلق یہی اندیشہ پیدا ہوا کہ ان بیچاروں کی کیسی بےعزتی ان نابکاروں کے ہاتھ ہوگئی۔ (آیت) ” ضاق بھم ذرعا “۔ عربی محاورہ میں اس موقع پر بولتے ہیں جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ اس کا آنا جی کو کھل گیا۔ وضاقت نفسہ غما (ابن جریر)
Top