Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 33
اَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ١ۚ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ١ؕ قُلْ سَمُّوْهُمْ١ؕ اَمْ تُنَبِّئُوْنَهٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ١ؕ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مَكْرُهُمْ وَ صُدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ
اَفَمَنْ : پس کیا جو هُوَ : وہ قَآئِمٌ : نگران عَلٰي : پر كُلِّ نَفْسٍ : ہر شخص بِمَا كَسَبَتْ : جو اس نے کمایا (اعمال) وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنا لیے لِلّٰهِ : اللہ کے شُرَكَآءَ : شریک (جمع) قُلْ : آپ کہ دیں سَمُّوْهُمْ : ان کے نام لو اَمْ : یا تُنَبِّئُوْنَهٗ : تم اسے بتلاتے ہو بِمَا : وہ جو لَا يَعْلَمُ : اس کے علم میں نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَمْ : یا بِظَاهِرٍ : محض ظاہری مِّنَ : سے الْقَوْلِ : بات بَلْ : بلکہ زُيِّنَ : خوشنما بنا دئیے گئے لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا مَكْرُهُمْ : ان کی چال وَصُدُّوْا : اور وہ روک دئیے گئے عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ ۭوَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَمَا : تو نہیں لَهٗ : اس کے لیے مِنْ هَادٍ : کوئی ہدایت دینے والا
پھر کیا وہ جو ہر شخص کے اوپر مطلع ہے کہ اس نے کیا کیا (وہ دوسروں کے برابر ہے ؟ ) ،63۔ ان لوگوں کے لئے شریک ٹھہرائے ہیں، آپ کہیے ان کے صفات تو بتاؤ،64۔ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دے رہے ہو جسے وہ زمین میں جانتا ہی نہیں یا یہ ہے کہ (وہ محض) ظاہری لفظ کے اعتبار سے (معبود ہیں) ؟ ،65۔ بلکہ بات یہ ہے کہ (ان) کافروں کی نظر میں ان کا مکر خوشنما کردکھایا گیا ہے اور یہ لوگ راہ (حق) سے محروم رہ گئے ہیں،66۔ اور جسے اللہ گمراہ رکھے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں،67۔
63۔ یعنی کہیں ایسا علیم کل، ہمہ بین، ہمہ دان، معبود برحق اور تمہارے خود ساختہ، بیخبر معبود ان باطل برابر ہوسکتے ہیں ؟ (آیت) ” قآئم۔۔۔ کسبت “۔ یعنی ہمہ دان۔ ہمہ تواں قادر مطلق وعلیم کل، اے قادرعلی کل الممکنات عالم بجمیع المعلومات (کبیر) اے رقیب ومھیمن (روح) 64۔ جن سے ان کی معبودیت پر کچھ تو روشنی پڑے) (آیت) ” سموھم “۔ اسم۔ پر حاشیہ سورة بقرہ رکوع 4 علم ادم الاسماء کلھا کے تحت میں گزر چکا ہے، مراد یہاں صفات سے ہے جیسے اردو فقرہ میں کہیں کہ ذرا تعریف تو کیجئے۔ یہ مراد نہیں کہ ان کے نام گنانا شروع کردو۔ قیل صفوھم ثم انظروا ھلھی اھل لان تعبد (معالم) والمعنی صفوھم فانظروا ھل لھم ما یستحقون بہ العبادۃ (بیضاوی) ولیس المراد ان یذکروا اسامیھا نحواللات والعزی وانما المعنی اظھار تحقیق ماتدعونہ الھا وانہ ھل یوجد معانی تلک الاسماء فیھا (راغب) (آیت) ” جعلوا للہ شرکآء “۔ شریک ٹھہرانا یہی ہے کہ کسی صفت خداوندی میں بھی کسی مخلوق کو شریک کرلیا جائے ، 65۔ (اور لفظ کے عقب میں حقیقت کچھ بھی نہیں) تو اگر یہ شق قبول ہے، تو خود ہی اعتراف ان نام کے معبودوں کے معبود نہ ہونیکا ہے۔ (آیت) ” ام تنبؤنہ۔۔۔ الارض “۔ حق تعالیٰ تو انہی چیزوں کو موجود جانے گا جو موجود ہیں، اور جو سرے سے موجود ہی نہیں بلکہ معدوم ہیں، انہیں موجود سمجھ لینا، یہ تو علم نہ ہوا جہل وکذب ہوا، تو اب یہ تمہارے نام نہاد معبود بہ حیثیت معبود خارج میں وجود رکھتے ہی کہاں ہیں، جو حق تعالیٰ کو ان کے وجود کا علم ہو، ان کا وجود تو جو کچھ بھی ہے بس وہ تمہارے وہم ہی میں تو ہے۔ 66۔ (اپنے عناد وتعصب اختیاری کی بناء پر) (آیت) ” مکرھم “۔ یعنی ان کی مغالطہ پر ور تقریریں ان کے جھوٹے عذرات، ان کی طرح طرح کی چالیں عداوت اسلام ومسلمین میں۔ 67۔ حق تعالیٰ کی جانب نسبت اضلال پر حاشیے بار بار آ چکے ہیں۔
Top