Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 42
وَ قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِیْعًا١ؕ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ
وَقَدْ مَكَرَ : اور چالیں چلیں الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْمَكْرُ : چال (تدبیر) جَمِيْعًا : سب يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا تَكْسِبُ : جو کماتا ہے كُلُّ نَفْسٍ : ہر نفس (شخص) وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الْكُفّٰرُ : کافر لِمَنْ : کس کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : عاقبت کا گھر
اور ان کے قبل والے بھی (بڑی بڑی) چالیں چل چکے ہیں حالانکہ تدبیر تمام تر اللہ ہی کی ہے،83۔ وہی جانتا ہے کہ ہر شخص کیا کچھ کرتا رہتا ہے اور کافروں کو ابھی علم ہوا جاتا ہے کہ آخرت کی خوش انجامی کس کے لئے ہے،84۔
83۔ (اپنے اپنے رسول وقت کے مقابلہ میں اور بری طرح ناکام بھی رہ رہ چکے ہیں) یہ رسول اللہ ﷺ اور مومنین کو قدیم مثالوں کے ذریعہ سے سمجھایا ہے کہ ان کے معاصر کافروں کی بھی ناکامی یقینی ہے۔ 84۔ (آیت) ” سیعلم “۔ ابھی علم ہوا جاتا ہے۔ یعنی اپنی موت کے وقت۔ س، دلالت قرب کے لیے ہے، بعض نے کہا ہے کہ س تاکید کا ہے کہ س تاکید کا ہے یعنی ایسا یقیناً واقع ہو کر رہے گا۔ قیل السین لتاکید وقوع ذلک وعلمہ بہ (روح) (آیت) ” فللہ المکر جمیعا “۔ چناچہ وہی ان کافروں کی چالبازیوں کو چلنے نہیں دیتا۔ مکر کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب ہوتا ہے تو بہ طریق مشاکلت آتا ہے اور معنی جواب مکر کے ہوتے ہیں۔ اس پر حاشیہ کئی بار گزر چکا۔ محاورۂ اردو میں مکر صرف برائی کے موقع پر ہے۔ عربی زبان میں اس کا استعمال عام ہے اچھائی اور برائی ہر موقع کے لئے۔
Top