Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور کافروں نے اپنے پیمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال کر رہیں گے یا یہ ہو کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آؤ،25۔ پھر ان (رسولوں) پر ان کے پروردگار نے وحی نازل فرمائی کہ ہم ضرور (ان) ظالموں کو ہلاک کرکے رکھیں گے،26۔
25۔ حضرات انبیاء کی گفتگو سے بجائے اس کے کہ منکروں کے دل کچھ نرم پڑتے۔ الٹے انہوں نے یہ معاندانہ تقریر شروع کردی، (آیت) ” لتعودن “۔ سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پیغمبر بھی کبھی کفر وشرک میں مبتلا رہ چکے ہوتے ہیں، مراد صرف یہ ہے کہ قبل بعثت حضرات انبیاء جو حکومت اور مذہب رائج سے بےتعلقی رکھتے تھے اس کی تاویل بھی اہل کفر یہی کرلیا کرتے تھے کہ یہ بہرحال ہیں ہمارے ہی مذہب پر۔ اور عود کے معنی اگر بجائے پلٹ آنے یا واپس آنے کے محض آجانے کے لئے جائیں جیسا کہ لغت عرب میں ہیں تو کوئی سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اور متعدد ائمہ تفسیر ولغت اسی طرف گئے ہیں۔ العود بمعنی الصیرورۃ وھو کثیر فی کلام العرب کثرۃ فاشیۃ (کشاف) عاد قد تستعمل بمعنی صار فلا تستدعی الرجوع الی حالۃ ساسقۃ (ابو البقاء) والمراد من العود الصیرورۃ والانتقال من حال الی اخری وھو کثیر الاستعمال بھذا المعنی (روح) 26۔ (تو بےیہ چارے تمہیں کیا نکال سکیں گے) قوم کی قوم جب مخالفت پر تل جائے اور اس کے پاس سامان قوت واقتدار بھی ہر طرح کا موجود ہو تو اس کی دھمکیوں سے کسی حدتک متاثر ہونا ایک امر طبعی ہے۔ پیغمبروں کو ایسے ہی موقع پر وحی الہی سے تسکین دی جاتی ہے کہ ان ظالموں کی اتنی کیا مجال ہے، یہ تو خود عذاب سے ہلاک ہونے والے ہیں۔
Top