Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 33
وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ١ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَۚ
وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند دَآئِبَيْنِ : ایک دستور پر چلنے والے وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن
اور تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگی،57۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہوتو انہیں شمار نہ کرپاؤگے بیشک انسان بڑا ہی ناانصاف ہے، بڑا ہی ناشکرا ہے،58۔
57۔ (اور اس کا دینا بھی تمہارے حق میں قرین مصلحت ہوا) (آیت) ” من کل “۔ یعنی تمہاری ہر طلب کی ہوئی شے میں سے تمہیں کچھ دیا :۔ 58۔ (کہ نعمتوں کی قدر اور شکر نہیں کرتا بلکہ اور الٹا کفر ومعصیت میں مبتلا ہوجاتا ہے) (آیت) ” الظلوم کفار “۔ امام رازی (رح) کہتے ہیں کہ یہاں اللہ نے انسان کے یہ دو وصف بیان کئے ہیں، اور سورة نحل میں اپنے دو وصف ذکر کئے ہیں۔ ان اللہ لغفور رحیم گویا وہ آیت کے ٹھیک مقابل ہے اور انسان کی ناانصافی کے مقابلہ میں اللہ کی مغفرت اور انسان کے کفران نعمت کے مقابلہ میں اللہ کی رحمت ہے۔ والمقصود کانہ یقول ان کنت ظلوما فانا غفور وان کنت کفارا فانا رحیم (کبیر) (آیت) ” نعمت اللہ “۔ نعمت بطور جنس کے ہے اس لیے ترجمہ صیغہ جمع کیا گیا۔ اہل لطائف نے لکھا ہے کہ حق تعالیٰ کے احسان سے تو اہل نار تک خالی نہیں کہ اللہ تعالیٰ بہرحال اس سے بھی سخت تر سزا پر قادر تھا۔ اور یہ مضمون حدیث میں بھی آیا ہے۔ (آیت) ” لا تحصوھا “۔ احاطہ میں نہ لے پاؤ گے کہ وہ تو ہیں ہی بےپایاں۔ انسان کہاں سے اتنی فرصت اور اتنی ہمت لائے گا ! الانسان “۔ انسان سے یہاں مراد ہر فرد انسانی نہیں بلکہ جنس انسانی ہے عام اس سے کہ اس ظلم اور کفران کا تحقق چند میں پایا جائے یا زائد میں۔ والمراد من الانسان ھھنا الجنس یعنی ان عادۃ ھذا الجنس ھو اھذا (کبیر)
Top