Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 34
وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ١ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠   ۧ
وَاٰتٰىكُمْ : اور اس نے تمہیں دی مِّنْ : سے كُلِّ : ہر چیز مَا : جو سَاَلْتُمُوْهُ : تم نے اس سے مانگی وَاِنْ : اور اگر تَعُدُّوْا : گننے لگو تم نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ لَا تُحْصُوْهَا : اسے شمار میں نہ لا سکو گے اِنَّ : بیشک الْاِنْسَانَ : انسان لَظَلُوْمٌ : بیشک بڑا ظالم كَفَّارٌ : ناشکرا
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے میرے پروردگار اس شہر (مکہ) کو امن والا بنادے اور مجھ کو اور میرے فرزندوں کو اس سے بچائے رکھ کہ ہم لوگ مورتی پوجا کرنے لگیں،59۔
59۔ (جیسا کہ اب تک بچائے رکھا ہے) آیت میں صاف دلالت اس امر پر ہے کہ حضرات انبیاء تک امکان کفر وشرک سے م اور انہیں ہوجاتے بلکہ برابر اس سے ڈرتے ہی رہتے ہیں، کہنا چاہیے کہ اسی خوف لغزش ہی نے تو انہیں معصوم رکھا ہے تو بھلا ہم دنیا داروں کا کیا ذکر جو ہر وقت نفس اور شیطان کی کمند میں پھنسے ہوئے ہیں۔ (آیت) ” ھذا البلد “ یعنی شہر مکہ، (آیت) ” امنا “۔ یعنی اسے حرم مقرر کردے جس کے رہنے بسنے والے مستحق امن ہوتے ہیں۔ (آیت) ” واذ قال ابراہیم “۔ یہ وقت وہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شہر مکہ میں خانہ کعبہ کے قریب حضرت اسمعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ ؓ کو لا کر چھوڑ گئے ہیں۔
Top