Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 44
وَ اَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَاۤ اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ١ؕ اَوَ لَمْ تَكُوْنُوْۤا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍۙ
وَاَنْذِرِ : اور ڈراؤ النَّاسَ : لوگ يَوْمَ : وہ دن يَاْتِيْهِمُ : ان پر آئے گا الْعَذَابُ : عذاب فَيَقُوْلُ : تو کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا (ظالم) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخِّرْنَآ : ہمیں مہلت دے اِلٰٓى : طرف اَجَلٍ : ایک دن قَرِيْبٍ : تھوڑی نُّجِبْ : ہم قبول کرلیں دَعْوَتَكَ : تیری دعوت وَنَتَّبِعِ : اور ہم پیروی کریں الرُّسُلَ : رسول (جمع) اَوَ : یا۔ کیا لَمْ تَكُوْنُوْٓا : تم نہ تھے اَقْسَمْتُمْ : تم قسمیں کھاتے مِّنْ قَبْلُ : اس سے قبل مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ زَوَالٍ : کوئی زوال
اور آپ ڈرائیے لوگوں کو اس دن سے جس میں ان پر عذاب آپڑے گا پھر (یہ) ظالم کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو (اور) مہلت دے دے ایک مدت قلیل تک، ہم تیری دعوت قبول کرلیں گے اور پیغمبروں کا اتباع کریں گے،72۔ کیا تم نے اس کے قبل قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ تمہیں (کہیں بھی) جانا نہیں ہے،73۔
72۔ حشر میں جب انکشاف حقائق درجہ تام میں ہوجائے گا اور غفلت کے پردے ہر طرح چاک ہوجائیں گے، بدنصیب کافر عرض کریں گے کہ اب ہم نے خوب مزہ چکھ لیا اب ایک بار پھر ہمیں مہلت حیات عطا ہو کہ ہم دنیا میں جا کر از سرنوزندگی بسر کریں اور اب کی اپنی پوری فرماں برداری اور اطاعت شعاری کا ثبوت دیں۔ (آیت) ” الذین ظلموا “ مراد کفار ہیں۔ اے الکفار (مدارک) 73۔ (اس دنیا میں) ان کے جواب میں ارشاد ہوگا کہ دنیا میں رہنے کی تمہیں مہلت قلیل تو نہیں مدت طویل ملی تھی، پھر تم نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا بلکہ تم تو الٹے قسمیں کھا کھا کر بڑے زور اور دعوی کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ یہ حشر ونشر کا قصہ سب ڈھکوسلا ہے وجود جو کچھ ہے صرف اسی مادی دنیا اور اسی مادی زندگی سے، اس کے آگے کچھ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں نے اپنی زبان سے یہ سب تقریر نہ کی ہو۔ ، جب بھی زبان حال سے تو وہ بھی یہی کہتے رہے تھے۔ لعلھم اقسموا بطرا وغرورا اودل علیہ حالھم (بیضاوی) اوبالسنۃ الحال ودلالۃ الافعال (روح) (آیت) ” من زوال “۔ میں من تاکید نفی کے لئے ہے۔ ومن صلتہ لتاکید النفی (روح)
Top