Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 46
وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
وَ : اور قَدْ مَكَرُوْا : انہوں نے داؤ چلے مَكْرَهُمْ : اپنے داؤ وَ : اور عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے آگے مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ وَ : اور اِنْ : اگرچہ كَانَ : تھا مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ لِتَزُوْلَ : کہ ٹل جائے مِنْهُ : اس سے الْجِبَالُ : پہاڑ
اور انہوں نے اپنی بھی (بڑی بڑی) چالیں چلیں اور اللہ کے سامنے ان کی یہ چالیں تھیں اور واقعی ان کی یہ چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں،75۔
75۔ (لیکن حق پھر بھی غالب رہا، اور ان کی ساری چالیں خود انہی پر الٹ گئیں) (آیت) ” وقد مکروا مکرھم “۔ دین حق کو مٹادینے کے لئے وہ کبھی کبھی زبردست چالیں چلتے رہے (آیت) ” وعنداللہ مکرھم “۔ اللہ سے یہ چالیں کچھ مخفی تو رہ نہیں سکتی تھیں، سب اس کے علم میں تھیں، (آیت) ” لتزول منہ الجمال “۔ پہاڑوں کے ٹل جانے “ کا استعارہ عربی اسلوب بیان میں کسی شے کی انتہائی قوت کے اظہار کے لئے آتا ہے۔ ولیس المقصود من ھذا الکلام الاخبار عن وقوعہ بلالتعظیم والتھویل (کبیر) اے وان کان مکرھم فی غایۃ الشدۃ والمھانۃ وعبرعن ذلک بکونہ معدی لازالۃ الجبال عن مقارھا لکونہ مثل فی ذلک (روح) والذی یظھران زوال الجبال مجاز ضرب مثلا لمکر قریش وعظمہ والجبال لاتزول وھذا من باب الغلو والایغال والمبالغۃ فی ذم مکرھم (بحر) لیکن بجائے استعارہ کے اگر اسے لفظی ہی معنی میں لیا جائے جب بھی اب تو اس میں کوئی امر محال رہا نہیں، پہاڑوں کے توڑنے اور اڑا دینے کی تدبیریں ” جدید ومہذب “ انسان نے نکال ہی لی ہیں۔
Top