Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے تمہیں اطلاع دے دی تھی،10۔ کہ اگر شکر کروگے تو تمہیں ضرور زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کروگے تو بیشک میرا عذاب بڑا سخت ہے،11۔
10۔ (میرے ذریعہ سے) گفتگو ابھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کی چل رہی ہے۔ 11۔ (دنیا اور آخرت دونوں میں) (آیت) ” لازیدنکم “۔ زیادتی اور افزونی کس چیز میں ہوگی ؟ خود اسی نعمت میں ہونا تو ظاہر ہی ہے باقی اگر توفیق شکر وغیرہ بھی مراد لی جائے تو عموم لفظ سے یہ سب بھی بخوبی نکل سکتا ہے۔ بائبل کے حوالوں کیلئے ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ (آیت) ” لئن شکرتم “۔ شکر کی تعریف امام رازی (رح) نے یہ کی ہے کہ معنم کی نعمت کا اعتراف کیا جائے، اس کی تعظیم کی جائے اور طبیعت کو اس طریقہ کا عادی کیا جائے، اما الشکر فھو عبارۃ عن الاعتراف بنعمۃ المنعم مع تعظیمہ وتوطین النفس علی ھذہ الطریقۃ (کبیر) بعض صوفیہ نے کہا ہے کہ امور ناگوار طبع پر عمل اور ثبات اور ترک شکایت کا نام صبر ہے اور امور موافق طبع کی قدر کرنا اور اس پر مدح وثناء کرنا یہ شکر ہے، اور یہ دونوں حالات رفیع ہیں لیکن ان حجابات لطیف سے بھی گزر کر ہر حال میں نظر اپنے رب رؤف ورحیم پر رکھنا، اسی کو فاعل حقیقی سمجھنا اور حال طاری کی تلخی و شیرینی دونوں سے غیر متاثر رہ کر فعل محبوب ہی سے لذت ومسرت حاصل کرتے رہنا اور اسی کے آگے بہ کمال ادب سرجھکائے رکھنا رضاء و تسلیم ہے اور اس کا مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے :۔
Top