Tafseer-e-Majidi - Al-Hijr : 91
الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو جَعَلُوا : انہوں نے کردیا الْقُرْاٰنَ : قرآن عِضِيْنَ : ٹکڑے ٹکڑے
لینے والوں جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے تھے،79۔
79۔ (اور بعض ٹکڑوں کو جو اپنی مرضی کے مطابق ہوتے تھے، لے لیتے تھے، اور جن حصوں کو اپنے لیے ناخوشگوار پاتے تھے، ان سے انکار کردیتے تھے) یہ حال شروع شروع میں سب ہی منکرین قرآن کا تھا۔ اس کی صداقت کے وہ سو فیصدی منکر نہ تھے، جن حصوں کو چاہتے مان لیتے اور جسے نہ چاہتے نہ مانتے۔ یہاں انہی کا ذکر ہے کہ بالآخر وہ کیسے پارہ پارہ اور معذب ہو کر رہے۔ آیت اگر مدنی ہے جب تو کوئی اشکال ہی نہیں۔ صاف منکرین تباہ شدہ وہلاک شدہ کے انجام کی جانب اشارہ ہے۔ لیکن اگر مکی ہے تو مستقبل کا جو واقعہ یقنی طور پر قطعی ہوتا ہے۔ اس کے لیے عربی اسلوب بیان میں ماضی کا صیغہ لانا عام ہے اور قرآن مجید میں اس کی مثالیں ایک آدھ نہیں، بہ کثرت موجود ہیں۔ (آیت) ” انزلنا “۔ مراد حسب سیاق ” نازل کرچکے ہیں “۔ (بہ صیغہ ماضی) بھی ہوسکتی ہے۔ اور ” نازل کرکے رہیں گے “ (بہ صیغہ مستقبل) بھی ہوسکتی ہے۔ (آیت) ” المقتسمین “۔ قسم سے مشتق ہے، اور اس کے معنی حلف اٹھانے والوں کے ہیں، یعنی وہ دشمنان اسلام جنہوں نے مکہ معظمہ میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں باہم سازش کرکے حلف اٹھائے تھے، اے الذین تقاسموا شعب مکۃ وقیل الذین تحالفوا علی کیدہ (علیہ السلام) (راغب) قال ابن عرفۃ ھم الذین تقاسموا وتحالفوا علی کید الرسول ﷺ (تاج) اے الذین حلفوا (بخاری کتاب التفسیر) قال مجاہد تقاسموا وتحالفوا (بخاری) قوم تحالفوا علی عضہ النبی ﷺ وان تذیعوا ذالک بکل طریق (ابن قتیبہ) (آیت) ” عضین “۔ یعنی متفرق۔ پارہ پارہ۔ تعضیہ کے معنی حصوں کے الگ الگ کرنے کے ہیں۔ اے مفترقا والتعضیۃ تجزیۃ الاعضاء (راغب)
Top