Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 76
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١۪ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ١ؕ بَلٰۤى اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَتَوَفّٰىهُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے ہوئے اَنْفُسِهِمْ : اپنے اوپر فَاَلْقَوُا : پس ڈالیں گے السَّلَمَ : پیغام اطاعت مَا كُنَّا نَعْمَلُ : ہم نہ کرتے تھے مِنْ سُوْٓءٍ : کوئی برائی بَلٰٓى : ہاں ہاں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
جن کی جانیں فرشتوں نے اس حال میں قبض کی تھیں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے،38۔ تب وہ صلح کا پیغام ڈال چلیں گے کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے رہے،39۔ بیشک اللہ خوب جانتا ہے اس کو جو کچھ تم کرتے رہے تھے،40۔
38۔ یعنی موت کے وقت تک کفر وشرک میں مبتلا رہے تھے اے حال کو نھم مستمرین علی الشرک (روح) 39۔ اس پر ہیبت وہولناک منظر سے دو چار ہو کر منکرین حق اب خوشامدانہ لہجہ میں عرض کرنا شروع کریں گے کہ بھلا ہماری کیا مجال تھی، جو ہم شرک میں مبتلا ہوتے ! کہاں تو دنیا میں اتنا اکڑے ہوئے رہتے تھے، اور کہاں اب خوشامد پر اتر آئیں گے۔ (آیت) ” ماکنا نعمل من سوٓء “۔ یعنی اپنے خیال و عقیدہ میں تو ہم کوئی بری بات نہیں کررہے تھے، المراد ماکنا عاملین السوء فی اعتقادنا اے کان اعتقادنا ان علمنا غیر سیء (روح) 40۔ (تو اب تمہارے اقرار و انکار سے ہوتا کیا ہے۔ تمہارا حال تو عالم الغیب پر خود ہی سب روشن ہے)
Top