Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 2
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے بِالرُّوْحِ : وحی کے ساتھ مِنْ : سے اَمْرِهٖ : اپنے حکم عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖٓ : اپنے بندے اَنْ : کہ اَنْذِرُوْٓا : تم ڈراؤ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ : سوائے اَنَا : میرے فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
فرشتوں کو وحی کے ساتھ اپنے حکم سے نازل کرتا رہتا ہے اپنے بندوں میں جس پر وہ چاہے،3۔ (اس حکم کے ساتھ) کہ (لوگوں کو) خبردار کردو، کہ کوئی معبود بجز میرے نہیں ہے۔ سو مجھی سے ڈرتے رہو،4۔
3۔ یعنی انبیاء ومرسلین پر۔ (آیت) ” من یشآء “ نے ظاہر کردیا کہ نبوت عطیہ الہی ہے، امر استحقاقی نہیں۔ (آیت) ” بالروح “۔ روح سے مراد یہاں وحی الہی ہے۔ بالروح ای بالوحی (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ المراد من الروح الوحی وھو کلام اللہ (کبیر) (آیت) ” من امرہ “۔ میں اس کی تاکید ہے کہ یہ نزول ملائکہ ونزول وحی اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے، کوئی اور اس میں دخیل نہیں۔ یعنی ان ذلک التنزیل والنزول لایکون الا بامر اللہ تعالیٰ (کبیر) فرشتوں کا قرآن مجید میں جہاں جہاں ذکر ہے، وہاں برابر اسی طرح کی قیدیں لگا دی ہیں۔ مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ فرشتے اپنی طرف سے کسی امر میں سبقت کی مجال نہیں رکھتے، پابند ہیں تمامتر حکم الہی کے۔ امام رازی (رح) اس طرح کی متعدد آیات نقل کرکے لکھتے ہیں :۔ کل ھذا الایات دالۃ علی انھم لایقدمون علی عمل من الاعمال الا بامر اللہ تعالیٰ واذنہ (کبیر) دیوتا پرستی ملائکہ پرستی ہی کا دوسرا نام ہے۔ قرآن مجید کا اس لیے اس باب میں اس قدر اہتمام و احتیاط بالکل قدرتی ہے۔ (آیت) ” المآئکۃ صیغہ جمع میں بہ معنی جنس ملائکہ ہے، خواہ مراد اس سے صرف حضرت جبرئیل ہی ہوں، لیکن جیسا کہ امام رازی (رح) نے لکھا ہے، رسول اللہ ﷺ پر نزول تنہا جبرئیل (علیہ السلام) کا تھا ہی کب، کبھی غزوات میں فرشتوں کی پوری پوری فوجیں اتاری جاتیں، کہیں ملک الجبال آپ کی خدمت میں پہنچ جاتے، کبھی ملک البحار، کبھی کوئی اور۔ انہ سبحانہ وتعالیٰ ماانزل علی محمد ﷺ جبرئیل وحدہ بل فی اکثر الاحوال کان ینزل مع جبریل افواجا من الملئکۃ (کبیر) المراد بالملئکۃ عند الجمھور جبریل (علیہ السلام) ویسمی الواحد بالجمع کما قال الواحدی اذا کان رئیسا وعند بعض ھو (علیہ السلام) ومن معہ من حفظۃ الوحی (روح) من کو بعض نے بیانیہ و تفسیر یہ لیا ہے، اور (آیت) ” من امرہ “ سے وحی ہی مراد رکھی ہے۔ من امرہ بیان للروح المراد بہ الوحی (روح) ترجمہ اس صورت میں یوں ہوگا :۔ ” نازل کرتا ہے فرشتوں کو وحی یعنی اپنی حکم کے ساتھ “۔ اس میں اشارہ ادھر بھی ہے کہ پیغمبر پر وحی جو آتی ہے ملائکہ امین وصادق کے ذریعہ سے آتی ہے، کسی شیطان فاسق کے ذریعہ سے نہیں۔ نیز آیت سے اس کی تعلیم بھی مل جاتی ہے کہ پیغمبر صاحب وحی ہوجانے کے بعد بھی بندہ رہتا ہے۔ اور فرشتے بھی بہ ایں کمال تقرب ومنزلت حد عبودیت سے نہیں آگے بڑھنے پاتے۔ 4۔ (اور میرے مقابلہ میں کسی کو خاطر میں نہ لاؤ) انذار ایسا اعلان ہے جس کے ساتھ خوف بھی ملا جلا ہو۔ الانذار ھو الاعلام مع التخویف (کبیر)
Top